عدیل زیدی کی غزل

    یہ حال ماہ و سال ہے فراق سے وصال تک

    یہ حال ماہ و سال ہے فراق سے وصال تک حیات کو زوال ہے فراق سے وصال تک الجھ رہے ہیں مستقل تلاش سادگی میں ہم یہ زندگی تو جال ہے فراق سے وصال تک وہ کس طرح کروں بیاں جو ہو خوشی کی داستاں ملال ہی ملال ہے فراق سے وصال تک گماں کو کس طرح لکھوں حقیقتوں کا ترجماں خیال ہی خیال ہے فراق سے وصال ...

    مزید پڑھیے

    قرض جاں سے نمٹ رہی ہے حیات

    قرض جاں سے نمٹ رہی ہے حیات اس کی جانب پلٹ رہی ہے حیات رفتہ رفتہ گھٹا چھٹے جیسے بس اسی طرح چھٹ رہی ہے حیات چہرہ پہچان تک نہیں پاتی گرد میں اتنی اٹ رہی ہے حیات جیسے سورج غروب ہوتا ہے پھیل کر یوں سمٹ رہی ہے حیات کتنے منظر ہیں ایک منظر میں کتنے حصوں میں بٹ رہی ہے حیات کوئی اس کو ...

    مزید پڑھیے

    بس لمحے بھر میں فیصلہ کرنا پڑا مجھے

    بس لمحے بھر میں فیصلہ کرنا پڑا مجھے سب چھوڑ چھاڑ گھر سے نکلنا پڑا مجھے جب اپنی سر زمین نے مجھ کو نہ دی پناہ انجان وادیوں میں اترنا پڑا مجھے پاؤں میں آبلے تھے تھکن عمر بھر کی تھی رکنا تھا بیٹھنا تھا پہ چلنا پڑا مجھے اپنی پرکھ کے واسطے طوفاں کے درمیاں مضبوط کشتیوں سے اترنا پڑا ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی سزا پائی بہت ہے

    محبت کی سزا پائی بہت ہے ہمارے غم میں گیرائی بہت ہے کھڑا میلے میں اکثر سوچتا ہوں مرے اندر تو تنہائی بہت ہے نہیں ہے اور کوئی صرف میں ہوں فلک سے یہ صدا آئی بہت ہے کما لیں شہرتیں سستی سی ہم بھی مگر اس میں تو رسوائی بہت ہے تصور شرط سب کچھ سامنے ہے نظر والوں کو بینائی بہت ہے عدیلؔ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے تھاما یقیں کو گماں چھوڑ کر

    ہم نے تھاما یقیں کو گماں چھوڑ کر اک طرف ہو گئے درمیاں چھوڑ کر دل نہ مانا جئیں کہکشاں چھوڑ کر جا کے بستے کہاں خانداں چھوڑ کر اپنا گھر چھوڑ کر بستیاں چھوڑ کر بے اماں ہو گئے ہم اماں چھوڑ کر سو گئے بیچ میں داستاں چھوڑ کر ہم الگ ہو گئے کارواں چھوڑ کر کیسے ناداں تھے ہم سب کہاں آ ...

    مزید پڑھیے

    خالی دنیا میں گزر کیا کرتے

    خالی دنیا میں گزر کیا کرتے بن ترے عمر بسر کیا کرتے تو نے منزل ہی بدل دی اپنی ہم تیرے ساتھ سفر کیا کرتے ایک ہی خواب جنوں کافی تھا دیکھ کر بار دگر کیا کرتے اپنی ہی الجھنوں میں الجھے تھے ہم تری زلف کو سر کیا کرتے ہم جو دیوانگی میں کر گزرے عقل والے وہ ہنر کیا کرتے جو کیا تو نے خدا ...

    مزید پڑھیے

    رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے

    رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے وہ ایک طرفہ سہی تم سے پیار کرتے رہے ہے کیا تماشا ادھر رنجشیں ہی بڑھتی رہیں تعلقات ہمیں استوار کرتے رہے گزر گئی جو گھڑی لوٹ کر نہ آئی کبھی تلاش شام و سحر بار بار کرتے رہے تمہاری چاہ میں جتنے بھی زخم ہم کو ملے محبتوں میں ہم ان کا شمار کرتے رہے تری ...

    مزید پڑھیے

    اس کو جب کہ مرے انجام سے کچھ کام نہیں

    اس کو جب کہ مرے انجام سے کچھ کام نہیں مجھ کو بھی عشق کے اقدام سے کچھ کام نہیں جذبۂ عشق نہ پہنچا سکا جب میں اس تک مجھ کو اب نامہ و پیغام سے کچھ کام نہیں گھر میں جس کے لیے رہتا تھا وہی اب نہ رہا اب مجھے گھر کے در و بام سے کچھ کام نہیں منتظر رہتی تھی ہر شام تری قربت کی تو نہیں جب تو ...

    مزید پڑھیے

    تو جو چاہے بھی تو صیاد نہیں ہونے کے

    تو جو چاہے بھی تو صیاد نہیں ہونے کے لب ہمارے لب فریاد نہیں ہونے کے اس کے کوچہ میں میاں خاک اڑاتے کیوں ہو تم سے مجنوں تو اسے یاد نہیں ہونے کے کوئی اچھی بھی خبر کان میں آئے یا رب ایسی خبروں سے تو دل شاد نہیں ہونے کے تو رہے ہم سے خفا کتنا ہی چاہے لیکن ہم مگر تجھ سے تو ناشاد نہیں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    صحرا و دشت و سرو و سمن کا شریک تھا

    صحرا و دشت و سرو و سمن کا شریک تھا وہ درد کی دوا تھا دکھن کا شریک تھا وہ کیا سمجھ سکے گا مرے عشق کا مقام جو روح کے سفر میں بدن کا شریک تھا دیکھی نہ ہم نے جس کی جبیں پر کبھی شکن وہ دل کی ایک ایک چبھن کا شریک تھا اک لمحے کو وہ آیا تصور میں تو لگا جیسے وہ سارے دن کی تھکن کا شریک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2