Abrar Azmi

ابرار اعظمی

ابرار اعظمی کی غزل

    تنہا اداس شب کے سوا کوئی بھی نہ تھا

    تنہا اداس شب کے سوا کوئی بھی نہ تھا سناٹا آیا جھانک کے گھر میں چلا گیا بے کیفیوں کی جھیل میں بے حس سے کچھ پرند بیٹھے تھے تھوڑی دیر مگر اس سے کیا ہوا چہروں کے میلے جسموں کے جنگل تھے ہر جگہ ان میں کہیں بھی کوئی مگر آدمی نہ تھا وہ اجنبی یہی تو وہ کہتا تھا چیخ کر میرا ادھورا خواب ...

    مزید پڑھیے

    کس کا ہے جرم کس کی خطا سوچنا پڑا

    کس کا ہے جرم کس کی خطا سوچنا پڑا رہتے ہیں کیوں وہ ہم سے خفا سوچنا پڑا گل کی ہنسی میں رقص نجوم و قمر میں بھی شامل ہے کتنی تیری ادا سوچنا پڑا جب بھی مری وفاؤں کی بات آ گئی کہیں ان کو پھر ایک عذر جفا سوچنا پڑا غنچے اداس گل ہیں فسردہ چمن چمن کس کا کرم ہے باد صبا سوچنا پڑا شاید تمہاری ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ چمکی رات کی تصویر پیلی ہو گئی

    دھوپ چمکی رات کی تصویر پیلی ہو گئی دن گیا اور سرد تاریکی نکیلی ہو گئی جانے کس کی جستجو میں اس قدر گھوما کئے ہم جواں مردوں کی ہر پوشاک ڈھیلی ہو گئی مے کدہ سے گھر کی جانب خود بہ خود کیوں آ گئے سرد کمرے کی فضا کیا پھر نشیلی ہو گئی ہم سرابوں کے سفر کے اس قدر عادی ہوئے جل بھری ندیوں ...

    مزید پڑھیے

    اس نے کل بھاگتے لمحوں کو پکڑ رکھا تھا (ردیف .. ی)

    اس نے کل بھاگتے لمحوں کو پکڑ رکھا تھا بات دیوانے کی لگتی ہے ستم گر جیسی جسم تھا اس کا بس اک جسم کوئی بات نہ تھی ہاں نگاہوں میں کوئی چیز تھی تیور جیسی کیا کہا تو مرا سایہ ہے یقیں مجھ کو نہیں شکل تو کچھ نظر آتی ہے پیمبر جیسی میں نے کل توڑا اک آئینہ تو محسوس ہوا اس میں پوشیدہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    خیال لمس کا کار ثواب جیسا تھا

    خیال لمس کا کار ثواب جیسا تھا اثر صدا کا بھی موج شراب جیسا تھا ورق نچے ہوئے سب لفظ و معنی گم سم تھے یہ بات سچ ہے وہ چہرہ کتاب جیسا تھا تمام رات وہ پہلو کو گرم کرتا رہا کسی کی یاد کا نشہ شراب جیسا تھا اداس ذروں کے ہمراہ کوئی پھرتا رہا خموشیوں کا بیاباں سراب جیسا تھا اک عمر کھوئی ...

    مزید پڑھیے

    بہت تذکرہ داستانوں میں تھا

    بہت تذکرہ داستانوں میں تھا تو کیا وہ کہیں آسمانوں میں تھا مجھے دیکھ کر کل وہ ہنستا رہا تو وہ بھی مرے راز دانوں میں تھا وہ ہر شب چباتا رہا اژدہے سنا ہے کہ وہ نوجوانوں میں تھا عجب چیز ہے لمس کی تازگی نشہ ہی نشہ دو جہانوں میں تھا اسے زندگی مختصر ہی ملی مگر خندۂ گل یگانوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کمرے میں دھواں درد کی پہچان بنا تھا

    کمرے میں دھواں درد کی پہچان بنا تھا کل رات کوئی پھر مرا مہمان بنا تھا بستر میں چلی آئیں مچلتی ہوئی کرنیں آغوش میں تکیہ تھا سو انجان بنا تھا وہ میں تھا مرا سایہ تھا یا سائے کا سایہ آئینہ مقابل تھا میں حیران بنا تھا نظروں سے چراتا رہا جسموں کی حلاوت سنتے ہیں کوئی صاحب ایمان بنا ...

    مزید پڑھیے

    سناٹے کا درد نکھارا کرتا ہوں

    سناٹے کا درد نکھارا کرتا ہوں خود کو خاموشی سے پکارا کرتا ہوں تنہائی جب آئینہ دکھلاتی ہے اپنی ذات کا پہروں نظارہ کرتا ہوں آوازوں کا بوجھ اٹھائے صدیوں سے بنجاروں کی طرح گزارہ کرتا ہوں خوابوں کے سنسان جزیروں میں جا کر ویرانی سے ذکر تمہارا کرتا ہوں جب سے نیندیں لوٹ گئیں تاروں ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری بزم میں جس بات کا بھی چرچا تھا

    تمہاری بزم میں جس بات کا بھی چرچا تھا مجھے یقین ہے اس میں نہ ذکر میرا تھا نہ سرد آہیں نہ شکوے نہ ذکر درد فراق ہمارے عشق کا انداز ہی نرالا تھا کل آ گیا تھا سوا نیزے پر مرا سورج میں جل رہا تھا مگر ہر طرف اندھیرا تھا تھا چہرہ یخ زدہ جذبات کی حسیں تصویر بدن کشش کا مرقع سراب آسا ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پہ آگ فلک پر دھواں دکھائی دیا

    زمیں پہ آگ فلک پر دھواں دکھائی دیا مرا وجود کہیں درمیاں دکھائی دیا ہر ایک سمت یقیں کی نقاب اوڑھے ہوئے ہر ایک پیکر وہم و گماں دکھائی دیا سیاہ چاند ستارے سیاہ سورج تھا سنا ہے اس کو عجب اک سماں دکھائی دیا وہ میرا میں تھا کہ میں تھا یا میرا سایہ تھا کل آئنے میں کوئی بد گماں دکھائی ...

    مزید پڑھیے