Abrar Ahmad

ابرار احمد

روشن خیال پاکستانی شاعر، سنجیدہ شعری حلقوں میں معروف

Widely-reputed Pakistani poet, well-known to serious poetry lovers.

ابرار احمد کی نظم

    مٹی سے ایک مکالمہ

    ماں کہتی ہے جب تم چھوٹے تھے تو ایسے اچھے تھے سب آباد گھروں کی مائیں پیشانی پر بوسہ دینے آتی تھیں اور تمہارے جیسے بیٹوں کی خواہش سے ان کی گودیں بھری رہا کرتی تھیں ہمیشہ اور میں تمہارے ہونے کی راحت کے نشے میں کتنی عمریں چور رہی تھی اک اک لفظ مرے سینے میں اٹکا ہے سب کچھ یاد ہے آج کہ ...

    مزید پڑھیے

    مجید امجدؔ کے لئے

    تم آتے ہو دور دیس سے دور دیس سے آنے والوں پر ہر کوئی ہنستا ہے دل ڈرتا ہے جب سرد ہوا کے آنچل میں منہ ڈھانپ پرندے سوتے ہیں جب شام ڈھلے دیواروں پر کچھ سائے گڈمڈ ہوتے ہیں کچھ شکلیں رنگ جماتی ہیں اجڑی اجڑی دہلیزوں پر خاموشی دستک دیتی ہے اور بند کواڑوں کی تنہائی ہر سو خاک اڑاتی ہے اس ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے پہر کی دستک

    ترے شہر کی سرد گلیوں کی آہٹ مرے خون میں سرسرائی میں چونکا یہاں کون ہے میں پکارا مگر دور خالی سڑک پر کہیں رات کے ڈوبتے پہر کی خامشی چل پڑی رت جگوں کی تھکاوٹ میں ڈوبی ہوئی آنکھ سے خواب نکلا کوئی لڑکھڑاتا ہوا رات کے سرد آنگن میں گرتا ہوا خالی شاخوں میں اٹکے ہوئے چاند کی آنکھ سے ایک ...

    مزید پڑھیے

    معاف کیجئے گا خان صاحب

    جانے کن رہ گزاروں سے دوڑے چلے آتے ہیں لاشیں بھنبھوڑتے، بو سونگھتے بیٹھ گئے ہیں لوگ کہ بیٹھے ہوؤں کو کاٹتے نہیں! ویرانی کے عقب میں راستوں اور شاہراہوں کے کہرام اور جلتی بجھتی روشنیوں کے تعاقب میں پھٹے ہوئے حلق کے ساتھ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہیں دیوار پر ٹانگ اٹھا چکنے کے ...

    مزید پڑھیے

    قصباتی لڑکوں کا گیت

    ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی آنکھوں کے ساتھ دنوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں ہم تیرے خوش الحان پرندے ہر جانب تیری منڈیریں کھوجتے ہیں ہم نکلے تھے تیرے ماتھے کے لئے بوسہ ڈھونڈنے ہم آئیں گے بوجھل قدموں کے ساتھ تیرے تاریک حجروں میں پھرنے کے لئے تیرے سینے پر اپنی اکتاہٹوں کے پھول ...

    مزید پڑھیے

    کہیں ٹوٹتے ہیں

    بہت دور تک یہ جو ویران سی رہ گزر ہے جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوئے ہوئے قافلوں کی صدائیں بھٹکتی ہوئی پھر رہی ہیں، درختوں میں آنسو میں صحراؤں کی خامشی ہے ادھڑتے ہوئے خواب ہیں اور اڑتے ہوئے خشک پتے کہیں ٹھوکریں ہیں صدائیں ہیں افسوں ہے سمتوں کا حد نظر تک یہ تاریک سا ...

    مزید پڑھیے

    پس منظر کی آواز

    کسی بھولے نام کا ذائقہ کسی زرد دن کی گرفت میں کسی کھوئے خواب کا وسوسہ کسی گہری شب کی سرشت میں کہیں دھوپ چھاؤں کے درمیاں کسی اجنبی سے دیار کے میں جوار میں پھروں کس طرح یہ ہوا چلے گی تو کب تلک یہ زمیں رہے گی تو کب تلک کھلے آنگنوں پہ مہیب رات جھکی رہے گی تو کب تلک یہ جو آہٹوں کا ہراس ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں ترس گئی ہیں

    اس گھر میں یا اس گھر میں تو کہیں نہیں ہے دروازے بجتے ہیں خالی کمرے تیری باتوں کی مہکار سے بھر جاتے ہیں دیواروں میں تیری سانسیں سوئی ہیں میں جاگ رہا ہوں کانوں میں کوئی گونج سی چکراتی پھرتی ہے بھولے بسرے گیتوں کی چاندنی رات میں کھلتے ہوئے پھولوں کی دمک ہے، یہیں کہیں تیرے خواب مری ...

    مزید پڑھیے

    مجھے ڈر لگتا ہے

    آؤ ہم آج ہی کھل کر رولیں جانے کب وقت ملے آنکھ میں جتنے بھرے ہیں آنسو آؤ ہم آج بہا دیں ان کو گھات میں عمر بھی ہے وقت بھی رفتار بھی ہے کون جانے کہ ملیں راستے کب منزل سے کون جانے کہ رہا ہوں گے سفر سے کب تک کون جانے یہاں کس رت کی ردا سے اتریں پھول جن میں تری مہکار نہ ہو کون یہ جان سکے تیرے ...

    مزید پڑھیے

    زندہ آدمی سے کلام

    کبھی وقت کی سانس میں ہونٹ الجھا کے دیکھے ہیں تم نے کہ اس بد گماں موسموں کے مغنی کی تانیں نہاں خانۂ دل میں گہری خموشی کی ہیبت گراتی چلی جا رہی ہیں ازل سے ابد تک بپھرتے ہوئے سیل بے مائیگی میں کبھی دل اکھڑتے ہوئے شہر گرتے ہوئے دیکھ پائے ہو تم کبھی بھیگے بھیگے سے دیوار و در میں کہ بچپن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3