Abrar Ahmad

ابرار احمد

روشن خیال پاکستانی شاعر، سنجیدہ شعری حلقوں میں معروف

Widely-reputed Pakistani poet, well-known to serious poetry lovers.

ابرار احمد کی غزل

    کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں

    کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں پھر اس بے ربط سے خاکے میں خود سے کام رکھتا ہوں سلیقے سے میں اس کی گفتگو کا لطف لیتا ہوں اور اس کے رو بہ رو دل میں خیال خام رکھتا ہوں بہ ظاہر مدح سے اس کی کبھی تھکتا نہیں لیکن درون خانۂ دل خواہش دشنام رکھتا ہوں خوش آئی ہے ابھی تو قید ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے رکھا تھا جسے اپنی کہانی میں کہیں

    ہم نے رکھا تھا جسے اپنی کہانی میں کہیں اب وہ تحریر ہے اوراق خزانی میں کہیں بس یہ اک ساعت ہجراں ہے کہ جاتی ہی نہیں کوئی ٹھہرا بھی ہے اس عالم فانی میں کہیں جتنا ساماں بھی اکٹھا کیا اس گھر کے لیے بھول جائیں گے اسے نقل مکانی میں کہیں خیر اوروں کا تو کیا ذکر کہ اب لگتا ہے تو بھی شامل ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں خبر نہیں کچھ کون ہے کہاں کوئی ہے

    ہمیں خبر نہیں کچھ کون ہے کہاں کوئی ہے ہمیشہ شاد ہو آباد ہو جہاں کوئی ہے جگہ نہ چھوڑے کہ سیل بلا ہے تیز بہت اڑا پڑا ہی رہے اب جہاں تہاں کوئی ہے فشار گریہ کسی طور بے مقام نہیں دیار غم ہے کہیں پر پس فغاں کوئی ہے وہ کوئی خدشہ ہے یا وہم خواب ہے کہ خیال کہ ہو نہ ہو مرے دل اپنے درمیاں ...

    مزید پڑھیے

    گریزاں تھا مگر ایسا نہیں تھا

    گریزاں تھا مگر ایسا نہیں تھا یہ میرا ہم سفر ایسا نہیں تھا یہاں مہماں بھی آتے تھے ہوا بھی بہت پہلے یہ گھر ایسا نہیں تھا یہاں کچھ لوگ تھے ان کی مہک تھی کبھی یہ رہ گزر ایسا نہیں تھا رہا کرتا تھا جب وہ اس مکاں میں تو رنگ بام و در ایسا نہیں تھا بس اک دھن تھی نبھا جانے کی اس کو گنوانے ...

    مزید پڑھیے

    یہ یقیں یہ گماں ہی ممکن ہے

    یہ یقیں یہ گماں ہی ممکن ہے تجھ سے ملنا یہاں ہی ممکن ہے خواب اک ممکن و میسر کا گرچہ اس کا بیاں ہی ممکن ہے بے حد و بے حساب شوق میں بھی قصد کوئے بتاں ہی ممکن ہے تنگنائے جہان ظاہر میں یہ زمیں یہ زماں ہی ممکن ہے حد سے حد اس رہ ہزیمت میں پرسش رہرواں ہی ممکن ہے آتش دل پہ ڈالنے کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھی تو کمال ہو گیا ہے

    یہ بھی تو کمال ہو گیا ہے ظاہر وہ جمال ہو گیا ہے جس کام میں ہم نے ہاتھ ڈالا وہ کام محال ہو گیا ہے گزری ہوئی عمر کا ہر اک پل منت کش حال ہو گیا ہے دل کون سا تازہ دم تھا پہلے اب اور نڈھال ہو گیا ہے کچھ روز جو دن پھرے ہیں اپنے وہ شامل حال ہو گیا ہے جو خواب سے خون سے کمایا وہ مفت کا مال ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں اسے ڈھونڈیں گی تماشا نہیں ہوگا

    آنکھیں اسے ڈھونڈیں گی تماشا نہیں ہوگا وہ دیکھیں گے ہم جو کبھی دیکھا نہیں ہوگا اک خواب زر و سیم سے گھر بھر گئے سارے اب کوئی یہاں نیند کا مارا نہیں ہوگا دل ہوگا نہیں ہوگا کسی یاد کا مسکن سو بام طلب پر کوئی چہرہ نہیں ہوگا ہم ہوں گے نہیں ہوں گے ترے شام و سحر میں لیکن تجھے اس بات کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ رہ عشق ہے اس راہ پہ گر جائے گا تو

    یہ رہ عشق ہے اس راہ پہ گر جائے گا تو ایک دیوار کھڑی ہوگی جدھر جائے گا تو شور دنیا کو تو سن رنگ رہ یار تو دیکھ ہم جہاں خاک اڑاتے ہیں ادھر جائے گا تو در بہ در ہے تو کہیں جی نہیں لگتا ہوگا وہ بھی دن آئے گا تھک ہار کے گھر جائے گا تو عازم ہجر مسلسل ہوا اس مٹی سے لوٹ آئے گا یہیں اور کدھر ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی

    ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی مگر یہ دل ہے ابھی مانتا نہیں کچھ بھی ہم اس کے غم کو ان آنکھوں میں لے کے پھرتے ہیں مگر وہ شخص ہمیں جانتا نہیں کچھ بھی یہ کیسی دھول سی راہوں میں اڑتی پھرتی ہے تو اے مسافر جاں کیا بچا نہیں کچھ بھی ہم اپنے اپنے دل و جاں کی خیر مانگتے ہیں یہ عجز کچھ ...

    مزید پڑھیے

    اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

    اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو ایک آنسو نہیں ہے رونے کو خواب اچھے رہیں گے ان دیکھے خاک اچھی رہے گی سونے کو تو کہیں بیٹھ اور حکم چلا ہم جو ہیں تیرا بوجھ ڈھونے کو چشم نم چار اشک اور ادھر داغ اک رہ گیا ہے دھونے کو بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی کیا کریں اوڑھنے بچھونے کو یہ مہ و سال چند باقی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3