Abrar Ahmad

ابرار احمد

روشن خیال پاکستانی شاعر، سنجیدہ شعری حلقوں میں معروف

Widely-reputed Pakistani poet, well-known to serious poetry lovers.

ابرار احمد کی غزل

    قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ

    قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ پانی میں ہے کیا اور بھی پانی سے زیادہ اس خاک میں پنہاں ہے کوئی خواب مسلسل ہے جس میں کشش عالم فانی سے زیادہ نخل گل ہستی کے گل و برگ عجب ہیں اڑتے ہیں یہ اوراق خزانی سے زیادہ ہر رخ ہے کہیں اپنے خد و خال سے باہر ہر لفظ ہے کچھ اپنے معانی سے زیادہ وہ حسن ...

    مزید پڑھیے

    اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

    اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو ایک آنسو نہیں ہے رونے کو خواب اچھے رہیں گے ان دیکھے خاک اچھی رہے گی سونے کو یہ مہ و سال چند باقی ہیں اور کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو نارسائی کا رنج لائے ہیں تیرے دل میں کہیں سمونے کو چشم نم چار اشک اور ادھر داغ اک رہ گیا ہے دھونے کو بیٹھنے کو جگہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی یکجا ہے بکھرتا نظر آتا ہے مجھے

    جو بھی یکجا ہے بکھرتا نظر آتا ہے مجھے جانے یوں ہے بھی کہ ایسا نظر آتا ہے مجھے چشم وا میں تو وہی منظر خالی ہے جو تھا موند لوں آنکھ تو کیا کیا نظر آتا ہے مجھے مائل عرض تمنا ہے نہ ہے وقف ملال اے مرے دل تو ٹھہرتا نظر آتا ہے مجھے پس نظارہ کوئی خواب گریزاں ہی نہ ہو دیکھنے میں تو تماشا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر

    کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر سو تم ہمیں غم دو کوئی ہمت کے برابر کب لگتا ہے جی راہ سہولت میں ہمیشہ اور ملتا ہے کب رنج ضرورت کے برابر آسائش و آرام ہو یا جاہ و حشم ہو کیا چیز یہاں پر ہے محبت کے برابر گنجائش افسوس نکل آتی ہے ہر روز مصروف نہیں رہتا ہوں فرصت کے برابر بھر لائے ...

    مزید پڑھیے

    اک فراموش کہانی میں رہا

    اک فراموش کہانی میں رہا میں جو اس آنکھ کے پانی میں رہا رخ سے اڑتا ہوا وہ رنگ بہار ایک تصویر پرانی میں رہا میں کہ معدوم رہا صورت خواب پھر کسی یاد دہانی میں رہا ڈھنگ کے ایک ٹھکانے کے لیے گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا میں ٹھہرتا گیا رفتہ رفتہ اور یہ دل اپنی روانی میں رہا وہ مرا ...

    مزید پڑھیے

    کیا جانیے کیا ہے حد ادراک سے آگے

    کیا جانیے کیا ہے حد ادراک سے آگے بس خاک ہے اس تیری مری خاک سے آگے ہے شور فغاں خامشیٔ مرگ کے پیچھے اک تیز ہوا ہے خس و خاشاک سے آگے ہم دیکھتے ہیں آنکھ میں سہمے ہوئے آنسو اک چپ ہے کہیں خندۂ بے باک سے آگے اک رنگ سا ہے رنگ تمنا سے مماثل اک ابر سا ہے دیدۂ نم ناک سے آگے میں اپنے کسی خواب ...

    مزید پڑھیے

    راہ دشوار بھی ہے بے سر و سامانی بھی

    راہ دشوار بھی ہے بے سر و سامانی بھی اور اس دل کو ہے کچھ اور پریشانی بھی یہ جو منظر ترے آگے سے سرکتا ہی نہیں اس میں شامل ہے تری آنکھ کی حیرانی بھی اپنے مجبور پہ کچھ اور کرم ہو کہ اسے کم پڑی جاتی ہے اب غم کی فراوانی بھی صرف افسوس کا سایہ ہی نہیں ہے ہم پر ہم کہ ہیں خواب تب و تاب کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو سر ہم تری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں

    یہ جو سر ہم تری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں یہ سمجھ لے کہ زمانے کے ستائے ہوئے ہیں ہم نے اس دل کو کہیں اور لگایا ہوا ہے اور یہ ہاتھ کہیں اور اٹھائے ہوئے ہیں تجھے دیکھوں تو مجھے یاد یہ کون آتا ہے تو نے یہ رنگ بھلا کس کے چرائے ہوئے ہیں کار دنیا نے ہمیں مہلت یک خواب نہ دی سو کہیں کھوئے ...

    مزید پڑھیے

    دل میں کیا تھا جو کھو گیا ہے کہیں

    دل میں کیا تھا جو کھو گیا ہے کہیں میرا نقصان ہو گیا ہے کہیں وہ تری کھوج میں رہا اور پھر غالباً تجھ کو رو گیا ہے کہیں رنگ وہ لے گیا مگر مجھ میں اپنی خوشبو سمو گیا ہے کہیں تیری آواز بھی نہیں سنتا کیا مرا بخت سو گیا ہے کہیں ہم رہ صد ملال ہے وہ کبھی اور ہر رنج دھو گیا ہے کہیں یوں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی سوچے نہ ہمیں کوئی پکارا نہ کرے

    کوئی سوچے نہ ہمیں کوئی پکارا نہ کرے ہم کہیں ہیں کہ نہیں ہیں کوئی چرچا نہ کرے رات افسوں ہے کہیں کا نہیں رہنے دیتی دن کو سوئے نہ کوئی رات کو جاگا نہ کرے ہم نکل آئے ہیں اب دھوپ میں جلنے کے لیے کوئی بادل نہیں بھیجے کوئی سایہ نہ کرے ان گنت آنکھوں میں ہم جلتے رہے بجھتے رہے اب بھلے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3