Abrar Ahmad

ابرار احمد

روشن خیال پاکستانی شاعر، سنجیدہ شعری حلقوں میں معروف

Widely-reputed Pakistani poet, well-known to serious poetry lovers.

ابرار احمد کے تمام مواد

23 غزل (Ghazal)

    قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ

    قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ پانی میں ہے کیا اور بھی پانی سے زیادہ اس خاک میں پنہاں ہے کوئی خواب مسلسل ہے جس میں کشش عالم فانی سے زیادہ نخل گل ہستی کے گل و برگ عجب ہیں اڑتے ہیں یہ اوراق خزانی سے زیادہ ہر رخ ہے کہیں اپنے خد و خال سے باہر ہر لفظ ہے کچھ اپنے معانی سے زیادہ وہ حسن ...

    مزید پڑھیے

    اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

    اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو ایک آنسو نہیں ہے رونے کو خواب اچھے رہیں گے ان دیکھے خاک اچھی رہے گی سونے کو یہ مہ و سال چند باقی ہیں اور کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو نارسائی کا رنج لائے ہیں تیرے دل میں کہیں سمونے کو چشم نم چار اشک اور ادھر داغ اک رہ گیا ہے دھونے کو بیٹھنے کو جگہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی یکجا ہے بکھرتا نظر آتا ہے مجھے

    جو بھی یکجا ہے بکھرتا نظر آتا ہے مجھے جانے یوں ہے بھی کہ ایسا نظر آتا ہے مجھے چشم وا میں تو وہی منظر خالی ہے جو تھا موند لوں آنکھ تو کیا کیا نظر آتا ہے مجھے مائل عرض تمنا ہے نہ ہے وقف ملال اے مرے دل تو ٹھہرتا نظر آتا ہے مجھے پس نظارہ کوئی خواب گریزاں ہی نہ ہو دیکھنے میں تو تماشا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر

    کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر سو تم ہمیں غم دو کوئی ہمت کے برابر کب لگتا ہے جی راہ سہولت میں ہمیشہ اور ملتا ہے کب رنج ضرورت کے برابر آسائش و آرام ہو یا جاہ و حشم ہو کیا چیز یہاں پر ہے محبت کے برابر گنجائش افسوس نکل آتی ہے ہر روز مصروف نہیں رہتا ہوں فرصت کے برابر بھر لائے ...

    مزید پڑھیے

    اک فراموش کہانی میں رہا

    اک فراموش کہانی میں رہا میں جو اس آنکھ کے پانی میں رہا رخ سے اڑتا ہوا وہ رنگ بہار ایک تصویر پرانی میں رہا میں کہ معدوم رہا صورت خواب پھر کسی یاد دہانی میں رہا ڈھنگ کے ایک ٹھکانے کے لیے گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا میں ٹھہرتا گیا رفتہ رفتہ اور یہ دل اپنی روانی میں رہا وہ مرا ...

    مزید پڑھیے

تمام

26 نظم (Nazm)

    مٹی سے ایک مکالمہ

    ماں کہتی ہے جب تم چھوٹے تھے تو ایسے اچھے تھے سب آباد گھروں کی مائیں پیشانی پر بوسہ دینے آتی تھیں اور تمہارے جیسے بیٹوں کی خواہش سے ان کی گودیں بھری رہا کرتی تھیں ہمیشہ اور میں تمہارے ہونے کی راحت کے نشے میں کتنی عمریں چور رہی تھی اک اک لفظ مرے سینے میں اٹکا ہے سب کچھ یاد ہے آج کہ ...

    مزید پڑھیے

    مجید امجدؔ کے لئے

    تم آتے ہو دور دیس سے دور دیس سے آنے والوں پر ہر کوئی ہنستا ہے دل ڈرتا ہے جب سرد ہوا کے آنچل میں منہ ڈھانپ پرندے سوتے ہیں جب شام ڈھلے دیواروں پر کچھ سائے گڈمڈ ہوتے ہیں کچھ شکلیں رنگ جماتی ہیں اجڑی اجڑی دہلیزوں پر خاموشی دستک دیتی ہے اور بند کواڑوں کی تنہائی ہر سو خاک اڑاتی ہے اس ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے پہر کی دستک

    ترے شہر کی سرد گلیوں کی آہٹ مرے خون میں سرسرائی میں چونکا یہاں کون ہے میں پکارا مگر دور خالی سڑک پر کہیں رات کے ڈوبتے پہر کی خامشی چل پڑی رت جگوں کی تھکاوٹ میں ڈوبی ہوئی آنکھ سے خواب نکلا کوئی لڑکھڑاتا ہوا رات کے سرد آنگن میں گرتا ہوا خالی شاخوں میں اٹکے ہوئے چاند کی آنکھ سے ایک ...

    مزید پڑھیے

    معاف کیجئے گا خان صاحب

    جانے کن رہ گزاروں سے دوڑے چلے آتے ہیں لاشیں بھنبھوڑتے، بو سونگھتے بیٹھ گئے ہیں لوگ کہ بیٹھے ہوؤں کو کاٹتے نہیں! ویرانی کے عقب میں راستوں اور شاہراہوں کے کہرام اور جلتی بجھتی روشنیوں کے تعاقب میں پھٹے ہوئے حلق کے ساتھ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہیں دیوار پر ٹانگ اٹھا چکنے کے ...

    مزید پڑھیے

    قصباتی لڑکوں کا گیت

    ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی آنکھوں کے ساتھ دنوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں ہم تیرے خوش الحان پرندے ہر جانب تیری منڈیریں کھوجتے ہیں ہم نکلے تھے تیرے ماتھے کے لئے بوسہ ڈھونڈنے ہم آئیں گے بوجھل قدموں کے ساتھ تیرے تاریک حجروں میں پھرنے کے لئے تیرے سینے پر اپنی اکتاہٹوں کے پھول ...

    مزید پڑھیے

تمام