Abrar Abid

ابرار عابد

ابرار عابد کی غزل

    فکر کا گر سلسلہ موجود ہے

    فکر کا گر سلسلہ موجود ہے فاش ہے وہ بھی جو ناموجود ہے اس سے مجھ سے فاصلہ کچھ بھی نہیں ایک دیوار انا موجود ہے سوچتا ہوں کچھ عمل کرتا ہوں کچھ مجھ میں کوئی دوسرا موجود ہے سنتا رہتا ہوں ترے قدموں کی چاپ ورنہ دل میں اور کیا موجود ہے ہجر میں روئے تو جی ہلکا ہوا درد کے اندر دوا موجود ...

    مزید پڑھیے

    لب پہ مرے فریاد نہیں ہے اے غم دنیا اے غم جاناں

    لب پہ مرے فریاد نہیں ہے اے غم دنیا اے غم جاناں مجھ کو کچھ بھی یاد نہیں ہے اے غم دنیا اے غم جاناں قلب شکستہ پر جو نہ گزری مجھ آشفتہ پر جو نہ بیتی ایسی کوئی افتاد نہیں ہے اے غم دنیا اے غم جاناں تھا جو ارمانوں کا ڈیرا آرزوؤں کا حسیں بسیرا اب وہ مکاں آباد نہیں ہے اے غم دنیا اے غم ...

    مزید پڑھیے

    خوشی نہ مل سکی آنکھیں مری پر آب رہیں

    خوشی نہ مل سکی آنکھیں مری پر آب رہیں خیال و خواب کی باتیں خیال و خواب رہیں سحر ہوئی نہ مرے شہر آرزو میں کبھی کہ مہر حسن کی کرنیں پس نقاب رہیں انہی کے دم سے ہے قائم وقار سجدۂ شکر وہ لوگ جن کی سدا قسمتیں خراب رہیں کسی نے بھی در احساس اپنا وا نہ کیا دکھے دلوں کی صدائیں نہ کامیاب ...

    مزید پڑھیے

    پاس اس کے مرے غم کا مداوا بھی نہیں ہے

    پاس اس کے مرے غم کا مداوا بھی نہیں ہے لیکن مجھے اس شخص سے شکوہ بھی نہیں ہے کیا علم تھا یہ دن بھی دکھائے گی محبت وہ ایسے ملا جیسے شناسا بھی نہیں ہے آنچل پہ ترے ٹانک تو دیتا دم رخصت پلکوں پہ مری کوئی ستارہ بھی نہیں ہے حیران ہوں میں آج سر جادۂ اخلاص تا دور کوئی نقش کف پا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سانسوں کو دے کے تحفۂ نکہت گزر گئی

    سانسوں کو دے کے تحفۂ نکہت گزر گئی چھو کر مجھے ہوائے محبت گزر گئی آنکھوں میں اعتبار کا موسم بسا رہا مجھ کو فریب دے کے وہ صورت گزر گئی محسوس کر رہا ہوں اسے ہر نفس کے ساتھ وہ جس کے انتظار میں مدت گزر گئی آنکھوں میں ایک کرب سا لہرا کے رہ گیا نظروں سے جب بھی تیری شباہت گزر گئی وقت آ ...

    مزید پڑھیے

    وہ چشم مائل لطف و کرم ہوئی بھی تو کب

    وہ چشم مائل لطف و کرم ہوئی بھی تو کب اجڑ چکا ہے دل اپنی خوشی ملی بھی تو کب اتر چکا ہے رگ جاں میں زہر تنہائی اسے بھی فرصت چارہ گری ملی بھی تو کب ہیں تا بحد نظر سلسلے سرابوں کے شدید تر ہوا احساس تشنگی بھی تو کب سموم غم کے اثر سے جھلس چکا ہے بدن دیار جاں میں ہواے طرب چلی بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    بشر بشر سے گریزاں ہے دیکھیے کیا ہو

    بشر بشر سے گریزاں ہے دیکھیے کیا ہو اک انقلاب نمایاں ہے دیکھیے کیا ہو فقط جنوں ہی نہیں اب کے موسم گل میں خرد بھی چاک گریباں دیکھیے کیا ہو رہ حیات کی دشواریاں ارے توبہ ثبات عزم بھی لرزاں ہے دیکھیے کیا ہو بدل تو سکتی ہے نیرنگیٔ فریب سحر یقیں نہیں مگر امکاں ہے دیکھیے کیا ہو جسے ...

    مزید پڑھیے

    کس سے اب جا کے کہیں حال پریشاں اپنا

    کس سے اب جا کے کہیں حال پریشاں اپنا لیے پھرتے ہیں سبھی چاک گریباں اپنا جز ترے نام کے ابھری نہ کوئی اور صدا ہم نے چھیڑا جو کبھی تار رگ جاں اپنا پھر اسے مجھ سا کوئی چاہنے والا نہ ملا وہ پشیماں ہے بہت توڑ کے پیماں اپنا میرے ہونٹوں کے تبسم سے ہراساں ہو کر رخ بدل لیتا ہے سیل غم دوراں ...

    مزید پڑھیے

    دھوکا ہے اس کا جانب اغیار دیکھنا

    دھوکا ہے اس کا جانب اغیار دیکھنا جب ہم نہ ہوں تو رنگ رخ یار دیکھنا تجھ سے بچھڑنا یوں بھی قیامت سے کم نہ تھا اس پر ترا پلٹ کے وہ اک بار دیکھنا اپنے غموں کا بوجھ اٹھا اپنے دوش پر توہین غم ہے جانب غم خوار دیکھنا وہ شکل ایک خواب تھی اور خواب خواب ہے کب تک یہ خواب دیدۂ بے دار ...

    مزید پڑھیے

    ڈوب جانا مرا مقدر تھا

    ڈوب جانا مرا مقدر تھا اس کی آنکھیں نہ تھیں سمندر تھا سبب دل شکستگی مت پوچھ سامنے آئنے کے پتھر تھا بے توازن گزر رہی ہے حیات وہ مری زندگی کا محور تھا جس کی سانسوں میں تھی مسیحائی اس کا ایک ایک لفظ نشتر تھا اس کو دیکھا تو مر گیا شاید مجھ میں پوشیدہ ایک آذر تھا جس کو عابدؔ سکون دل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2