Abid Wadood

عابد ودود

عابد ودود کی غزل

    نہ گھر سکون کدہ ہے نہ کارخانۂ عشق

    نہ گھر سکون کدہ ہے نہ کارخانۂ عشق مگر یہ ہم ہیں کہ لکھتے رہے ہیں نامۂ عشق بہت سے نام تھے اب کوئی یاد آتا نہیں ہمارے دل میں رہا دفن اک خزانۂ عشق سب اپنے اپنے طریقے سے بھیک مانگتے ہیں کوئی بنام محبت کوئی بہ جامۂ عشق تمہی پہ کیا کہ ہم اب خود پہ بھی نہیں کھلتے تو کیا یہ کم ہے کہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    جب سے دریا میں ہے طغیانی بہت

    جب سے دریا میں ہے طغیانی بہت پار جانے میں ہے آسانی بہت کوئی منظر بھی نہیں اچھا لگا اب کے آنکھوں میں ہے ویرانی بہت اپنی قیمت تو نہیں لیکن یہاں ایسے گوہر کی ہے ارزانی بہت کھیت ہیں بنجر تو صحرا بے نمو ورنہ دریاؤں میں ہے پانی بہت اس کے چہرے پر مری آنکھیں سجیں میرے چہرے پر تھی ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی تنہائی کبھی ہوتی ہے حاصل مجھ کو

    جب بھی تنہائی کبھی ہوتی ہے حاصل مجھ کو وقت رکھ دیتا ہے میرے ہی مقابل مجھ کو آخری عمر کی افتاد گئی طبع کی خیر راس آتا ہے الم زار نہ محفل مجھ کو ایک بار اور میں جی پاؤں تو شاید حل ہوں زندگانی نے دئے ایسے مسائل مجھ کو عشق اتنا بھی ہے کافی کہ تجھے چاہتا ہوں اتنا حاصل ہے تو کیا کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2