Abid Wadood

عابد ودود

عابد ودود کی غزل

    زخم کے رنگ ہیں کیا میری ردا جانتی ہے

    زخم کے رنگ ہیں کیا میری ردا جانتی ہے کس نے کی کس سے وفا خود یہ وفا جانتی ہے اب قفس اور گلستاں میں کوئی فرق نہیں ہم کو خوشبو کی طلب ہے یہ صبا جانتی ہے خود پرستی کے محلات میں رہنے والو زلزلہ آنے کو ہے لرزش پا جانتی ہے میں نہیں جانتا دریوزہ گری کو لیکن میرے لب پر ہے دعا کیا یہ دعا ...

    مزید پڑھیے

    چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی

    چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی وہ ساتھ ساتھ ہے اور بیکلی نہیں جاتی شباب رفتہ پھر آتا نہیں جوانی پر یہ وہ مکاں ہے کہ جس کو گلی نہیں جاتی عجیب در بدری میں گزر رہی ہے حیات کہ اپنے گھر میں بھی اب بے گھری نہیں جاتی چمن کو چاروں طرف گھیر کر نہیں رکھنا صبا گلوں کی طرف کب چھپی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ میں ماہتاب ہو جیسے

    ہاتھ میں ماہتاب ہو جیسے کھلی آنکھوں میں خواب ہو جیسے میرے ہمسائے میں جو رہتا ہے مجھ سا خانہ خراب ہو جیسے چاند نکلا تو اس قرینے سے اک حسیں بے حجاب ہو جیسے ہم سفر ڈھونڈنے کو نکلا ہوں موسم انتخاب ہو جیسے یوں گناہوں کی یاد آتی ہے آج یوم حساب ہو جیسے آنکھ مدت سے تر نہیں عابدؔ خشک ...

    مزید پڑھیے

    جانے کس سمت کو بھٹکا سایہ

    جانے کس سمت کو بھٹکا سایہ دھوپ کہنے لگی سایہ! سایہ! کوئی سرنامہ ہمارا لکھے رخش پر ہم تو پیادہ سایہ سر بے مغز کے اوہام تو دیکھ جسم اپنا ہے پرایا سایہ یہ عداوت ہے حقارت تو نہیں ان کی دستار سے روٹھا سایہ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا چھن گیا ہم سے ہمارا سایہ اب تو اعجاز ہے جینا ...

    مزید پڑھیے

    تیری دنیا کی کج ادائی سے

    تیری دنیا کی کج ادائی سے لڑ رہا ہوں بھری خدائی سے حسن ہے آپ اپنی آرائش حسن گھٹتا ہے خود نمائی سے ہم نے قدموں کو دور رکھا ہے ہر بدی سے ہر اک برائی سے دل ہی ٹوٹا ہے کچھ نہیں بگڑا آپ کی طرز بے وفائی سے بد گمانی کا دور ہے عابدؔ بھائی ہے بد گمان بھائی سے

    مزید پڑھیے

    پھٹا ہوا جو گریباں دکھائی دیتا ہے

    پھٹا ہوا جو گریباں دکھائی دیتا ہے کسی کا درد نمایاں دکھائی دیتا ہے نکلنا چاہتا ہوں جسم کے حصار سے میں کہ اپنا تن مجھے زنداں دکھائی دیتا ہے سرائے دہر میں ٹھہرا ہوا مسافر ہوں عجیب بے سر و ساماں دکھائی دیتا ہے ترے لبوں کے تبسم کو کس سے دوں تشبیہ کہ غنچہ بھی تو پریشاں دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اندر بھی ہم نوائی نہیں

    اپنے اندر بھی ہم نوائی نہیں عقل کی روح تک رسائی نہیں سودا بازی اگر نہ ہو اس میں نیکی کرنے میں کچھ برائی نہیں ہر ادا سے ادا نکلتی ہے اتنی آسان آشنائی نہیں ہم سے قائم ہے تیرے حسن کی شان یہ مری جان! خود ستائی نہیں کتنا تنہا ہوں دشت غربت میں میرا بھائی بھی میرا بھائی نہیں کسی ...

    مزید پڑھیے

    شدت بہار کی بھی گوارا نہیں مجھے

    شدت بہار کی بھی گوارا نہیں مجھے پھولوں کے توڑنے کا بھی یارا نہیں مجھے موجوں سے کھیلتا ہوں ارادوں کا دور ہے موجوں میں آرزوئے کنارہ نہیں مجھے میں گر پڑا تھا راہ میں چلتے ہوئے مگر پھر بھی تو دوستوں نے پکارا نہیں مجھے کس دن چبھی نہیں ہیں مصائب کی کرچیاں کس دن تمہارے غم نے سنوارا ...

    مزید پڑھیے

    وقت کے ساتھ زندگی کا دکھ

    وقت کے ساتھ زندگی کا دکھ مرے سر پر ہے ہر خوشی کا دکھ اپنے زخموں کو بھول جاتا ہوں دیکھ لیتا ہوں جب کسی کا دکھ لیلائے ہر سخن پریشاں ہے جب قلم میں ہے بے کسی کا دکھ ہم سفر اب نہیں کوئی میرا میرا ساتھی ہے ہمرہی کا دکھ آج معراج ہو گئی میری آج بانٹا ہے بندگی کا دکھ زندگی ساری بندگی ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے رخ پہ کھلا بادباں اندھیرے کا

    ہوا کے رخ پہ کھلا بادباں اندھیرے کا یہاں پہ نام نہیں اب کسی سویرے کا اٹھا کے لے گیا ثروت کبھی کا ہے جوگی کوئی سراغ نہیں اب اسی کے پھیرے کا ہوائے گرم کے تپتے لباس میں پہروں وہ سایہ ٹانکتا ہے ہر شجر گھنیرے کا ہر ایک شاخ سے صندل کے سانپ ہیں لپٹے اثر پذیر نہیں کوئی دم سپیرے کا سکوت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2