اے خدا ایک بار مل مجھ سے
اے خدا ایک بار مل مجھ سے یہ تعارف تو غائبانہ ہے میں غلط وقت پر ہوا بیدار یہ کسی اور کا زمانہ ہے
اے خدا ایک بار مل مجھ سے یہ تعارف تو غائبانہ ہے میں غلط وقت پر ہوا بیدار یہ کسی اور کا زمانہ ہے
زمیں کے غرب سے سورج طلوع کرتا ہوں اور اختتام کا قصہ شروع کرتا ہوں مری گلی مری وحشت سمجھ نہیں پائی سو اب تمہاری گلی سے رجوع کرتا ہوں
میں اس کہانی میں ترمیم کر کے لایا ہوں جو تم کو پہلے سنائی تھی مسترد سمجھو مجھے خدا سے نہیں ہے کوئی گلہ لیکن تم آدمی ہو تو پھر آدمی کی حد سمجھو
روز اک باغ گزرتا ہے اسی رستے سے روز کشکول میں اک پھول دھرا ہوتا ہے زخم اور پیڑ نے اک ساتھ دعا مانگی ہے دیکھیے پہلے یہاں کون ہرا ہوتا ہے
اب منانا اسے مشکل ہے کہ یہ آخری پل روٹھنے کے لیے تیار ہوا بیٹھا ہے میرے باہر ترے آنے کی خوشی ہو کہ نہ ہو میرے اندر کوئی سرشار ہوا بیٹھا ہے
گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے کسی طرح یہ شجر مجھ پہ مہرباں ہو جائے اسی لئے تو اداسی سے گفتگو نہیں کی کہیں وہ بات نہ باتوں کے درمیاں ہو جائے
زخم دیکھے جسم دیکھا اور پہچانا اسے دھیرے دھیرے پھر مجھے میں یاد آنے لگ گیا حیرتوں کو دیکھتا تھا کچھ بھی کہہ پاتا نہ تھا آخر اک دن آئنہ آنسو بہانے لگ گیا
سنا رہا ہوں کسی اور کو کتھا اپنی کھڑا ہوا ہے کوئی اور آدمی مرے ساتھ وہ مجھ کو پہلے بھی تنہا کہاں سمجھتا تھا پھر اس نے میری اداسی بھی دیکھ لی مرے ساتھ