عابد ملک کی غزل

    یہ کار خیر ہے اس کو نہ کار بد سمجھو

    یہ کار خیر ہے اس کو نہ کار بد سمجھو مجھے تباہ کرو اور اسے مدد سمجھو میں اس کہانی میں ترمیم کر کے لایا ہوں جو تم کو پہلے سنائی تھی مسترد سمجھو مجھے خدا سے نہیں ہے کوئی گلہ لیکن تم آدمی ہو تو پھر آدمی کی حد سمجھو یہ صرف پیڑ نہیں ہے صدی کا قصہ ہے یہ جو بھی بات کرے اس کو مستند ...

    مزید پڑھیے

    اک اجنبی کی طرح ہے یہ زندگی مرے ساتھ

    اک اجنبی کی طرح ہے یہ زندگی مرے ساتھ جو وقت کاٹ رہی ہے ہنسی خوشی مرے ساتھ سنا رہا ہوں کسی اور کو کتھا اپنی کھڑا ہوا ہے کوئی اور آدمی مرے ساتھ سفر میں پیڑ کا سایا نہیں ملے گا مجھے بس اتنا سنتے ہی دیوار چل پڑی مرے ساتھ وہ مجھ کو پہلے بھی تنہا کہاں سمجھتا تھا پھر اس نے میری اداسی ...

    مزید پڑھیے

    آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں

    آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں کوئی فقیر بیٹھا ہے صحرا کی راہ میں پھر یوں ہوا کہ شوق سے کھولی نہ میں نے آنکھ اک خواب آ گیا تھا مری خواب گاہ میں اس بار کتنی دیر یہاں ہوں خبر نہیں آ تو گیا ہوں پھر سے تری بارگاہ میں پھر کار زندگی نے مجھے چھوڑنا نہیں کچھ دن یہیں گزار لوں اپنی پناہ ...

    مزید پڑھیے

    اس کو جو کچھ بھی کہوں اچھا برا کچھ نہ کرے

    اس کو جو کچھ بھی کہوں اچھا برا کچھ نہ کرے یار میرا ہے مگر کام مرا کچھ نہ کرے کیسے ممکن ہے کہ دل رنج پہ آمادہ ہو اور بدلے میں اداسی کا خدا کچھ نہ کرے دوسری بار بھی پڑ جوے اگر کچھ کرنا آدمی پہلی محبت کے سوا کچھ نہ کرے کوئی حیرت کوئی صورت نہیں درکار مجھے آئنہ یا تری باتیں کرے یا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    کون کہتا ہے کہ وحشت مرے کام آئی ہے

    کون کہتا ہے کہ وحشت مرے کام آئی ہے یہ کوئی اور اذیت مرے کام آئی ہے یوں ہی میں تیرتا پھرتا نہیں صحراؤں میں ایک دریا کی نصیحت مرے کام آئی ہے لوگ دیوانہ سمجھتے ہی نہیں تھے مجھ کو مری بگڑی ہوئی حالت مرے کام آئی ہے ورنہ جنت سے کہاں مجھ کو نکالا جاتا جو نہیں کی وہ عبادت مرے کام آئی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا

    میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا صرف اس رات اندھیروں نے مجھے دیکھا تھا پوچھتا پھرتا ہوں میں اپنا پتہ جنگل سے آخری بار درختوں نے مجھے دیکھا تھا یوں ہی ان آنکھوں میں رہتی نہیں صورت میری آخر اس شخص کے خوابوں نے مجھے دیکھا تھا اس لئے کچھ بھی سلیقے سے نہیں کر پاتا گھر میں ...

    مزید پڑھیے

    گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے

    گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے کسی طرح یہ شجر مجھ پہ مہرباں ہو جائے ستارے جھاڑ کے بالوں سے اب یہ کہتا ہوں کوئی زمین پہ رہ کر نہ آسماں ہو جائے اسی لئے تو اداسی سے گفتگو نہیں کی کہیں وہ بات نہ باتوں کے درمیاں ہو جائے یہ زخم ایسے نہیں ہیں کہ جو دکھائیں تمہیں یہ رنج ایسا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    شہر سے جب بھی کوئی شہر جدا ہوتا ہے

    شہر سے جب بھی کوئی شہر جدا ہوتا ہے ہر طرف نقشے پہ کہرام بپا ہوتا ہے روز اک باغ گزرتا ہے اسی رستے سے روز کشکول میں اک پھول دھرا ہوتا ہے زخم اور پیڑ نے اک ساتھ دعا مانگی ہے دیکھیے پہلے یہاں کون ہرا ہوتا ہے ایک دوجے کو کبھی جان نہیں پائے ہم میں نیا ہوتا ہوں یا خواب نیا ہوتا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    کیوں چلتی زمیں رکی ہوئی ہے

    کیوں چلتی زمیں رکی ہوئی ہے کیا میرے تئیں رکی ہوئی ہے سائے کو روانہ کر دیا ہے دیوار کہیں رکی ہوئی ہے خوابوں سے اداس ہو کے تعبیر پلکوں کے قریں رکی ہوئی ہے موسم کا لحاظ ہے ہوا کو یوں ہی تو نہیں رکی ہوئی ہے میں آتے دنوں سے جا ملا ہوں دنیا تو وہیں رکی ہوئی ہے

    مزید پڑھیے

    ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہوگا

    ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہوگا یہ وہ ہجوم ہے جو مشتعل نہیں ہوگا زمیں پر آنے سے پہلے ہی علم تھا مجھ کو مرا قیام یہاں مستقل نہیں ہوگا اندھیرا پوجنے والوں نے فیصلہ دیا ہے چراغ اب کسی شب میں مخل نہیں ہوگا تجھے معاف تو کر دوں گا ساری باتوں پر مگر یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوگا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2