Abid Kazmi

عابد کاظمی

  • 1958

عابد کاظمی کی غزل

    التجا ہے عجز و عسرت کن فکانی اور ہے

    التجا ہے عجز و عسرت کن فکانی اور ہے گفتگوئے بے ثمر معجز بیانی اور ہے قریۂ مومن پہ حملہ کر تو پہلے سوچ لے یہ علاقہ مختلف یہ راجدھانی اور ہے ہر عدالت لکھ چکی ہے فیصلہ تو کیا ہوا فیصلہ باقی ابھی اک آسمانی اور ہے کچھ نہ کہہ کر بھی صداقت باپ کی منوا گئے اصغر بے شیر تیری بے زبانی اور ...

    مزید پڑھیے

    نہ ہو حیات کا حاصل تو بندگی کیا ہے

    نہ ہو حیات کا حاصل تو بندگی کیا ہے جو بے نیاز ہو سجدوں سے زندگی کیا ہے سدا بہار چمن میں بھی گر نشیمن ہو ترے بغیر جو گزرے وہ زندگی کیا ہے خدا کو مان کے خود کو خدا سمجھتا ہے انا پرستی سراسر ہے بندگی کیا ہے بس ہم کمال سمجھتے ہے جیتے رہنے کو یہ کربلا نے بتایا کہ زندگی کیا ہے وہ جو ...

    مزید پڑھیے

    تھا مختصر وجود جسیم و جری نہ تھی

    تھا مختصر وجود جسیم و جری نہ تھی کرنوں سے آفتاب کی شبنم ڈری نہ تھی آتے تھے اس زبان پے بس لفظ با وقار وو معتبر زبان تھی میٹھی چھری نہ تھی ارباب فکر و فن بھی تعصب کی زد پے ہیں دنیا بری تو تھی مگر اتنی بری نہ تھی عابدؔ کو بعد مرگ بھی رکھیں گے یاد سب جو زندگی گزاری وو بازی گری نہ ...

    مزید پڑھیے

    مقام اپنا دنیا میں ذیشان رکھ

    مقام اپنا دنیا میں ذیشان رکھ جو نظروں سے تولے وو میزان رکھ محب تو خدا کا ہے خالص غلط حبیب خدا پے بھی ایمان رکھ نا امیدی فقط کفر و الحاد ہے اگر تو ہے مومن تو ایقان رکھ تخیل بھی خود کا تغزل میں ہو بغل میں کسی کا نہ دیوان رکھ خدا کوئی ڈھونڈے تو ملتا بھی ہے تجسس تو اپنا پریشان رکھ

    مزید پڑھیے

    جنہیں تھا فخر نواب و نجیب ہوتے ہیں

    جنہیں تھا فخر نواب و نجیب ہوتے ہیں اب ان کے گھر میں تماشے عجیب ہوتے ہیں یزید وقت کو جو برملا ہی ٹوک سکے رقم وہ نام ہی زیر صلیب ہوتے ہیں وہ جن کو تو نے بڑا دل دیا ہے میرے خدا تو کیوں یہ ہوتا ہے اکثر غریب ہوتے ہیں جو لوگ مذہب و مسلک کی حد سے اوپر ہیں ہمارے دل کے وہ یکسر قریب ہوتے ...

    مزید پڑھیے