Abhishek Shukla

ابھیشیک شکلا

ہندوستانی اردو غزل کی نئی نسل کی ایک روشن آواز

One of the rising stars of new generation Indian ghazal.

ابھیشیک شکلا کی غزل

    لہر کا خواب ہو کے دیکھتے ہیں

    لہر کا خواب ہو کے دیکھتے ہیں چل تہہ آب ہو کے دیکھتے ہیں اس پہ اتنا یقین ہے ہم کو اس کو بیتاب ہو کے دیکھتے ہیں رات کو رات ہو کے جانا تھا خواب کو خواب ہو کے دیکھتے ہیں اپنی ارزانیوں کے صدقے ہم خود کو نایاب ہو کے دیکھتے ہیں ساحلوں کی نظر میں آنا ہے پھر تو غرقاب ہو کے دیکھتے ہیں وہ ...

    مزید پڑھیے

    اب اختیار میں موجیں نہ یہ روانی ہے

    اب اختیار میں موجیں نہ یہ روانی ہے میں بہہ رہا ہوں کہ میرا وجود پانی ہے میں اور میری طرح تو بھی اک حقیقت ہے پھر اس کے بعد جو بچتا ہے وہ کہانی ہے ترے وجود میں کچھ ہے جو اس زمیں کا نہیں ترے خیال کی رنگت بھی آسمانی ہے ذرا بھی دخل نہیں اس میں ان ہواؤں کا ہمیں تو مصلحتاً اپنی خاک ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں پہ شب رقم بھی نہیں کر سکوں گا میں

    آنکھوں پہ شب رقم بھی نہیں کر سکوں گا میں اے خواب تیرا غم بھی نہیں کر سکوں گا میں اک مستقل سفر ہے تری آرزو مجھے اور خود کو تازہ دم بھی نہیں کر سکوں گا میں اس کو خدا بنانے کی ضد پر اڑا ہے تو اے دل جسے صنم بھی نہیں کر سکوں گا میں سبزہ بھی چاہتی ہیں تصور کی خاک پر وہ آنکھیں جن کو نم ...

    مزید پڑھیے

    پیکر نور میں ڈھلتا ہی چلا جاتا ہوں

    پیکر نور میں ڈھلتا ہی چلا جاتا ہوں لو پکڑ لوں تو میں جلتا ہی چلا جاتا ہوں ایک تو ہے کی میسر نہیں آنے والا ایک میں ہوں کہ مچلتا ہی چلا جاتا ہوں فیصلہ کن ہے اگر تو تو بس اب جلدی کر میں جو ٹل جاؤں تو ٹلتا ہی چلا جاتا ہوں نخل صحرا تھا مگر جب سے تو رویا مجھ پر دیکھ میں پھولتا پھلتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    فصیل جسم گرا دے مکان جاں سے نکل

    فصیل جسم گرا دے مکان جاں سے نکل یہ انتشار زدہ شہر ہے یہاں سے نکل تری تلاش میں پھرتے ہیں آفتاب کئی سو اب یہ فرض ہے تجھ پر کہ سائباں سے نکل تمام شہر پہ اک خامشی مسلط ہے اب ایسا کر کہ کسی دن مری زباں سے نکل مقام وصل تو ارض و سما کے بیچ میں ہے میں اس زمین سے نکلوں تو آسماں سے نکل میں ...

    مزید پڑھیے

    سفر کے بعد بھی ذوق سفر نہ رہ جائے

    سفر کے بعد بھی ذوق سفر نہ رہ جائے خیال و خواب میں اب کے بھی گھر نہ رہ جائے میں سوچتا ہوں بہت زندگی کے بارے میں یہ زندگی بھی مجھے سوچ کر نہ رہ جائے بس ایک خوف میں ہوتی ہے ہر سحر میری نشان خواب کہیں آنکھ پر نہ رہ جائے یہ بے حسی تو مری ضد تھی میرے اجزا سے کہ مجھ میں اپنے تعاقب کا ڈر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی جیسی ہی کسی شکل میں ڈھالیں گے تمہیں

    اپنی جیسی ہی کسی شکل میں ڈھالیں گے تمہیں ہم بگڑ جائیں گے اتنا کی بنا لیں گے تمہیں جانے کیا کچھ ہو چھپا تم میں محبت کے سوا ہم تسلی کے لئے پھر سے کھگالیں گے تمہیں ہم نے سوچا ہے کہ اس بار جنوں کرتے ہوئے خود کو اس طرح سے کھو دیں گے کہ پا لیں گے تمہیں مجھ میں پیوست ہو تم یوں کہ زمانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2