Abhishek Kumar Amber

ابھیشیک کمار امبر

ابھیشیک کمار امبر کی نظم

    انتظار

    جب ملے تھے تم سے پہلی مرتبہ یہ لگا جیسے کہ سب کچھ پا لیا مل گئی تھی اس جہاں کی ہر خوشی بدلی بدلی ہو گئی تھی زندگی ایک دن پھر ہائے ایسا بھی ہوا ہو گئے اک دوسرے سے ہم جدا ملنے کی بس آس باقی رہ گئی اک تڑپتی پیاس باقی رہ گئی آج بھی اس دل کو میرے ہے یقیں کیا پتہ کس موڑ ٹکرائے کہیں اس لئے ...

    مزید پڑھیے

    بہار

    فصل پک آئی ہے گیہوں کی غنچے مسکرائے ہیں کچھ مٹی کے گملوں میں تو کچھ دھرتی کی باہوں میں اک اک ہاتھ اگ آیا ہے چٹنی کے لیے دھنیا پودینے کی بھی کونپل تھوڑی تھوڑی پھوٹ آئی ہیں مگر اک بیج تم نے دل کی دھرتی پر جو بویا تھا وہ اب بھی منتظر ہے تمہارا کھاد پانی چاہتا ہے

    مزید پڑھیے

    زندگی پین ہے

    زندگی پین ہے اس کے ریفل ہو تم پین کی پائی جاتی ہیں قسمیں بہت کوئی مونٹیکس ہے کوئی پایلٹ ہے پین مہنگے ہیں جو ان کی اک خاصیت من کرے جب آپ ریفل بدل سکتے ہو لیکن میں پین ہوں ۳ روپے والا جس میں ایسی کوئی خاصیت تو نہیں اک کمی ہے مگر یہ ٹوٹ جائے گا پر ریفل بدلتا نہیں

    مزید پڑھیے

    خیالوں کے سوئیٹر

    گھٹائیں آج بڑھتی جا رہی ہیں دکھانے پربتوں کو رعب اپنا ہواؤں کو بھی ساتھ اپنے لیا ہے کھڑے ہیں تان کر سینے کو پربت ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کہ اب گھیراؤ پورا ہو گیا ہے گرجنے لگ گئی ہے کالی بدلی سنہرے پروتوں کے رنگ پھیکے پڑھ گئے ہیں مٹ میلی ہوئی جاتی ہے اجلی اجلی پنڈر وہیں کچھ دور ...

    مزید پڑھیے

    نیا سال

    نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ چاند ستارے ہی بدلے سورج بھی ابھی ہے پہلے سا موسم بھی وہی ہے سردی کا فصلیں بھی وہی ہیں سرسوں کی وہی بوڑھی دادی برسوں کی دریا میں ذرا اپھان ہے کم مٹی بھی نہیں پہلے سی نم پیڑوں سے بہاریں غائب ہیں پودوں کی نزاکت بھی ہے گم اک تاریخ بدلنے کو کیول نیا سال آیا کہتے ...

    مزید پڑھیے