Abhishek Kumar Amber

ابھیشیک کمار امبر

ابھیشیک کمار امبر کی غزل

    چھوڑ ان کو نہ جانے کدھر میں گیا

    چھوڑ ان کو نہ جانے کدھر میں گیا دور تک تھا نہ کچھ جس ڈگر میں گیا اپنے ہاتھوں سے اس نے جو مجھ کو چھوا دیکھ تجھ سے زیادہ نکھر میں گیا سوچ کر بس یہی اب ملے گا خدا ہر گلی اور بستی نگر میں گیا دیکھ کر میرے حالات دے گی وو رو ملنے واپس اگر ماں سے گھر میں گیا

    مزید پڑھیے

    خواب آنکھوں میں جتنے پالے تھے

    خواب آنکھوں میں جتنے پالے تھے ٹوٹ کر وہ بکھرنے والے تھے جن کو ہم نے تھا پاک دل سمجھا ان ہی لوگوں کے کرم کالے تھے سب نے بھر پیٹ کھا لیا کھانا ماں کی تھالی میں کچھ نوالے تھے حال دل کا سنا نہیں پائے منہ پہ مجبوریوں کے تالے تھے

    مزید پڑھیے

    آئنہ سامنے رکھا ہوگا

    آئنہ سامنے رکھا ہوگا اس کا چہرا مگر جھکا ہوگا کیسے پالا ہے بیٹے کو میں نے بھول جائے گا جب بڑا ہوگا شاعری جام اور تنہائی ہجر کی شب میں اور کیا ہوگا ایک عرصے سے سنتے آئے ہیں جلد ہی دیش کا بھلا ہوگا تھا نہ معلوم ساتھ رہ کر بھی درمیان اتنا فاصلہ ہوگا یہ محبت کا کھیل ہے جاناں اس کی ...

    مزید پڑھیے

    تیرا افسانا چھیڑ کر کوئی

    تیرا افسانا چھیڑ کر کوئی آج جاگے گا رات بھر کوئی ایسے وہ دل کو توڑ دیتا ہے دل نہ ہو جیسے ہو ثمر کوئی رات ہوتے ہی میرے پہلو میں ٹوٹ کر جاتا ہے بکھر کوئی چند لمحوں میں توڑ سب رشتے دے گیا درد عمر بھر کوئی عشق کرتا نہیں ہوں میں تم سے کہہ کے پچھتایا عمر بھر کوئی میں وفا کر کے با وفا ...

    مزید پڑھیے

    راہ بھٹکا ہوا انسان نظر آتا ہے

    راہ بھٹکا ہوا انسان نظر آتا ہے تیری آنکھوں میں تو طوفان نظر آتا ہے پاس سے دیکھو تو معلوم پڑے گا تم کو کام بس دور سے آسان نظر آتا ہے اس کو معلوم نہیں اپنے وطن کی سرحد یہ پرندہ ابھی نادان نظر آتا ہے بس وحی بھومی پے انسان ہے کہنے لائق جس کو ہر شخص میں بھگوان نظر آتا ہے آئی جس روز ...

    مزید پڑھیے

    وہ مجھے آسرا تو کیا دے گا

    وہ مجھے آسرا تو کیا دے گا چلتا دیکھے گا تو گرا دے گا قرض تو تیرا وہ چکا دے گا لیکن احسان میں دبا دے گا حوصلہ ہوں گے جب بلند ترے تب سمندر بھی راستہ دے گا ایک دن تیرے جسم کی رنگت وقت ڈھلتا ہوا مٹا دے گا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا ہے کھانے کو کیا تجھے خدا دے گا لاکھ گالی فقیر کو دے ...

    مزید پڑھیے

    ایک خواہش ہے بس زمانے کی

    ایک خواہش ہے بس زمانے کی تیری آنکھوں میں ڈوب جانے کی ساتھ جب تم نبھا نہیں پاتے کیا ضرورت تھی دل لگانے کی آج جب آس چھوڑ دی میں نے تم کو فرصت ملی ہے آنے کی تیری ہر چال میں سمجھتا ہوں تجھ کو عادت ہے دل دکھانے کی ہم تو خانہ بدوش ہیں لوگو ہم سے مت پوچھئے ٹھکانے کی

    مزید پڑھیے

    مجھے معلوم ہے میں آج کیا ہوں

    مجھے معلوم ہے میں آج کیا ہوں خدا ہوں پر ابھی سویا ہوا ہوں سر محفل میں یوں خاموش رہ کر سبھی لوگوں کے تیور دیکھتا ہوں مرا مذہب فقط انسانیت ہے جسے ہر حال میں میں پوجتا ہوں نہیں اس راستے کا کوئی رہبر کہ جس رستے پہ اب میں چل پڑا ہوں مجھے سب دیکھ کر حیران کیوں ہیں میں قاتل ہوں کوئی ...

    مزید پڑھیے