جھوٹ اور سچ کے تماشے
ذرا دیکھ میرے مقدر کی شاخوں پہ جتنے شگوفے تھے سب جل گئے ہیں مرے رخت جاں پر بہاروں کا ضامن کوئی گل نہیں ہے ذرا یاد کر جب تری خوش بیانی نے جھوٹ اور سچ کے تماشے میں میری زباں کاٹ دی تھی وہ دن شوق پرواز میں جب ترے بازوؤں نے مری شاخ جاں کاٹ دی تھی ترے مرمریں قصر کے سنگ بنیاد میں میرا ...