Abdussamad Khateeb

عبدالصمد خطیب

عبدالصمد خطیب کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    دشت تنہائی میں جلنے کی سزا جانے ہے

    دشت تنہائی میں جلنے کی سزا جانے ہے کیا ہے برتاؤ ہواؤں کا دیا جانے ہے میں اسے دل کے دھڑکنے کا سبب کہتا ہوں اور اک وہ کہ مجھے خود سے جدا جانے ہے بے ضمیروں کا بھی جینا کوئی جینا ہے کہ بس لذت‌ زیست تو پابند انا جانے ہے میں اک آسودۂ غم ہوں سر راہ ہستی جز مرے کیف الم کون بھلا جانے ...

    مزید پڑھیے

    تصویر خوش آداب ہے دریا کے کنارے

    تصویر خوش آداب ہے دریا کے کنارے یا حسن جہاں تاب ہے دریا کے کنارے اک گوہر خوش تاب ہے دریا کے کنارے یا دیدۂ بے خواب ہے دریا کے کنارے آنکھوں میں ہے اک جلوۂ شفاف مسلسل اور ذہن میں گرداب ہے دریا کے کنارے اس شوخ کی انگڑائی کا ہے عکس سر شام یا سایۂ محراب ہے دریا کے کنارے ہر آنکھ پئے ...

    مزید پڑھیے

    مہہ‌ و نجوم کی صورت سفر میں رہتے ہیں

    مہہ‌ و نجوم کی صورت سفر میں رہتے ہیں کہ شب گزیدہ تلاش سحر میں رہتے ہیں ہمارا عقل سے کچھ ربط ہی نہیں جیسے جنوں اسیر ہیں دل کے اثر میں رہتے ہیں نہ کوئی چھت ہے نہ دیوار ہے نہ دروازہ یہ معجزہ ہے کہ ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں وفا طلب تو بہت ہیں وفا شعار نہیں یہ کس جہاں میں ہیں ہم کس نگر ...

    مزید پڑھیے

    تری تلاش میں بھٹکا ہوں در بدر جاناں

    تری تلاش میں بھٹکا ہوں در بدر جاناں میں تجھ کو بھول نہ پاؤں گا عمر بھر جاناں نہیں ہے تجھ سے کسی طور بھی مفر جاناں ہے تو ہی قاتل دل تو ہی چارہ گر جاناں مری تلاش مری آرزو مری چاہت ترا جمال ترا قرب معتبر جاناں یہ آنکھیں تیرے ہی جلوؤں کی ہیں امیں بے شک یہ دل ہے تیری محبت کا مستقر ...

    مزید پڑھیے

    وہ جواں دلوں کا حسیں ملن تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو

    وہ جواں دلوں کا حسیں ملن تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو مجھے یاد ہے مرے کم سخن تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ چہکتا لہجہ وہ گفتگو وہ کھنک تری سر آب جو وہ حسین شام کا بانکپن تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ محبتوں کی کہانیاں وہ رفاقتیں وہ جوانیاں وہ بدن میں جاگی ہوئی اگن تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ...

    مزید پڑھیے

تمام