Abdussamad Javed

عبدالصمد جاوید

  • 1921

عبدالصمد جاوید کی غزل

    اپنے ارباب زر نہیں بدلے

    اپنے ارباب زر نہیں بدلے ہیں بڑے کم نظر نہیں بدلے چھوڑ دی شاخ گل ہوئی مدت طور برق و شرر نہیں بدلے گردشوں نے جہان کو بدلا شیخ والا گہر نہیں بدلے انقلاب آ کے ہو گئے رخصت اپنے شام و سحر نہیں بدلے ہم کو دنیا کچل کے رکھ دے گی ہم نے رہبر اگر نہیں بدلے گھولا جاتا ہے زہر امرت ...

    مزید پڑھیے

    بدلی بدلی سی گلستاں کی ہوا آج بھی ہے

    بدلی بدلی سی گلستاں کی ہوا آج بھی ہے دست صرصر میں گل تر کی قبا آج بھی ہے آج بھی خون شہیداں سے ہے تزئین جمال دست قاتل کو تمنائے حنا آج بھی ہے کارگر ہو نہ سکا زخم کے مرہم کا علاج میرے سینے میں ہر اک زخم ہرا آج بھی ہے آنسوؤں میں بڑی لذت تھی بہت پہلے بھی اک طرف بیٹھ کے رونے میں مزہ ...

    مزید پڑھیے

    زمانے کی یہ حالت انقلابی ہم نے دیکھی ہے

    زمانے کی یہ حالت انقلابی ہم نے دیکھی ہے غریبی ہم نے دیکھی ہے نوابی ہم نے دیکھی ہے اڑاتے پھر رہے ہیں خاک ویراں ریگزاروں کی مہ و انجم کی صدیوں ہم رکاگی ہم نے دیکھی ہے چھلکتے جام جن ہاتھوں میں ہر دم رقص کرتے تھے انہیں ہاتھوں میں اب خالی گلابی ہم نے دیکھی ہے ہم اپنے گاؤں میں جس کا ...

    مزید پڑھیے

    حسن ہے مہرباں تعجب ہے

    حسن ہے مہرباں تعجب ہے پھر بھی ہم بد گماں تعجب ہے آمد آمد تھی موسم گل کی جل گیا آشیاں تعجب ہے جو بھٹکتے تھے پہنچے منزل پر کھو گئے کارواں تعجب ہے گرم تھی کل تو عیش کی محفل آج ماتم وہاں تعجب ہے پھول جھڑتے تھے ہر گھڑی جن سے ان لبوں پر فغاں تعجب ہے توبہ کی تھی شراب خانے سے آ گئے ...

    مزید پڑھیے