جھجک
ڈرتے ڈرتے کل میں نے اپنے لب جو کھولے تو چھوٹے چھوٹے لفظوں کی گہری گہری باتوں پر جھیل جھیل آنکھوں سے مسکرا رہا تھا وہ جیسے وہ بھی مدت سے منتظر تھا اس پل کا
ڈرتے ڈرتے کل میں نے اپنے لب جو کھولے تو چھوٹے چھوٹے لفظوں کی گہری گہری باتوں پر جھیل جھیل آنکھوں سے مسکرا رہا تھا وہ جیسے وہ بھی مدت سے منتظر تھا اس پل کا
ننھے منے بچوں کو دیکھ کر کبھی اکثر مسکرانے لگتا ہوں جیسے کوئی اپنا سا مدتوں میں مل جائے اور پھر نہ جانے کیوں آنکھ خون روتی ہے اس سہانے بچپن میں خواب جتنے دیکھے تھے یاد آنے لگتے ہیں
کل کی آرزو میں ہم آج سے الجھ بیٹھے اور پھر سکوں جیسے خواب ہو پریشاں سا آئیے ذرا صاحب اس سے پہلے یوں کر لیں آج کو سنواریں ہم کل کی ہے خبر کس کو