Abdus Sami Siddiqui Naeem

عبدالسمیع صدیقی نعیم

عبدالسمیع صدیقی نعیم کی غزل

    اس کا انداز ہے جدا سب سے

    اس کا انداز ہے جدا سب سے فاصلہ سب سے رابطہ سب سے لوگ مصروف ہیں فسانوں میں آپ کہہ دیجے واقعہ سب سے جانے کیوں طے ہوا نہیں اب تک دو قدم ہی کا فاصلہ سب سے چند ناموں پہ پردہ رہنے دو میری اتنی ہے التجا سب سے چپ رہا کرتا ہے نعیمؔ اکثر جب سے واقف وہ ہو گیا سب سے

    مزید پڑھیے

    بہت دن سے بتانا چاہتا ہوں

    بہت دن سے بتانا چاہتا ہوں تمہیں میں غائبانہ چاہتا ہوں بظاہر روٹھ جانا چاہتا ہوں مقدر آزمانا چاہتا ہوں تمہیں فرصت نہیں ہے لمحہ بھر کی ادھر میں اک زمانہ چاہتا ہوں مجھے بھی پریم ہے اردو سے یارو غزل سے آب و دانہ چاہتا ہوں مجھے ڈر ہے نعیمؔ اس بار میں بھی تعلق تاجرانہ چاہتا ہوں

    مزید پڑھیے

    تمہیں اتنا بتا دوں میں کسی انجام سے پہلے

    تمہیں اتنا بتا دوں میں کسی انجام سے پہلے بہت سے نام آئیں گے تمہارے نام سے پہلے ہر اک اکرام سے پہلے ہر اک انعام سے پہلے نمٹنا ہے مجھے یارو کسی الزام سے پہلے اندھیرے سے بڑا ہوتا ہے دیکھو ڈر اندھیرے کا چراغوں کو جلا رکھا ہے اس نے شام سے پہلے میں جب شہرت کے رستے پر نکلتا ہوں تو ملتا ...

    مزید پڑھیے

    زخم دل اپنا کبھی اس کو دکھا بھی دینا

    زخم دل اپنا کبھی اس کو دکھا بھی دینا اس کی سن لینا کبھی اس کو سنا بھی دینا آنسوؤں اور شرابوں کی کہانی کب تک مری غزلوں کو کوئی رنگ نیا بھی دینا میں ہوں منزل کا طلب گار مگر راہنما مجھ کو دو چار قدم راہ وفا بھی دینا ترے احسان نہ ہرگز میں کبھی بھولوں گا بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا بھی ...

    مزید پڑھیے