Abdurrahman Wasif

عبدالرحمان واصف

عبدالرحمان واصف کی غزل

    دل میں لیے اوہام کو اس گھر سے اٹھا میں

    دل میں لیے اوہام کو اس گھر سے اٹھا میں خالی کہاں بت خانۂ آذر سے اٹھا میں یوں ہے کہ زبردستی اٹھایا گیا مجھ کو ایسے تو نہیں کوئے ستم گر سے اٹھا میں احباب میں دل کھول کے اب جشن منا لے لے آج ترے صحن معطر سے اٹھا میں اک بوجھ اٹھائے ہوئے آنکھوں میں کٹی شب اک اسم کو پڑھتے ہوئے بستر سے ...

    مزید پڑھیے

    یہ مت سمجھ کہ ترے ساتھ کچھ نہیں کرے گا

    یہ مت سمجھ کہ ترے ساتھ کچھ نہیں کرے گا نظام ارض و سماوات کچھ نہیں کرے گا یہ تیرا مال کسی روز ڈس ہی لے گا تجھے اگر تو اس میں سے خیرات کچھ نہیں کرے گا ابھی پٹاری تو کھولی نہیں مداری نے تو کہہ رہا ہے کمالات کچھ نہیں کرے گا مجھے یقین دلا سب رہے گا ویسا ہی جنون اہل خرابات کچھ نہیں کرے ...

    مزید پڑھیے

    گمان توڑ چکا میں مگر نہیں کوئی ہے

    گمان توڑ چکا میں مگر نہیں کوئی ہے سرائے فکر میں بیٹھا ہوا کہیں کوئی ہے مرے خیال کو دیتا ہے نو بہ نو چہرے ہے آس پاس کوئی لمس مرمریں کوئی ہے مرا یقین کہ دنیا میں ہوں اکیلا میں صدائے دل مجھے کہتی ہے غم نشیں کوئی ہے تری تباہی میں شامل نہیں ہے غیر کوئی اسے تلاش تو کر مار آستیں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    روز وحشت کوئی نئی مرے دوست

    روز وحشت کوئی نئی مرے دوست اس کو کہتے ہیں زندگی مرے دوست علم احساس آگہی مرے دوست ساری باتیں ہیں کاغذی مرے دوست دیکھ اظہارئیے بدل گئے ہیں یہ ہے اکیسویں صدی مرے دوست کیا چراغوں کا تذکرہ کرنا روشنی گھٹ کے مر گئی مرے دوست ہاں کسی المیے سے کم کہاں ہے مری حالت تری ہنسی مرے ...

    مزید پڑھیے

    جہان فکر پہ چمکے گا جب ستارہ مرا

    جہان فکر پہ چمکے گا جب ستارہ مرا ہنر زمانے پہ تب ہوگا آشکارا مرا ابھی سے مت مرے کردار کو مرا ہوا جان ترے فسانے میں ذکر آئے گا دوبارا مرا تجھے دراہم و دینار کی شہی زیبا میں مطمئن ہوں کہ لفظوں پہ ہے اجارا مرا یہ اشتیاق مری دسترس وہاں تک ہو یہ انتظار وہ کس وقت ہوگا سارا مرا رموز ...

    مزید پڑھیے

    مزید کچھ نہیں بولا میں ہو گیا خاموش

    مزید کچھ نہیں بولا میں ہو گیا خاموش اس اہتمام سے اس نے مجھے کہا خاموش اب ایسے حال میں کیا خاک گفتگو ہوگی کہ ایک سوچ میں گم ہے تو دوسرا خاموش سو یوں ہوا کہ لگا قفل نطق و لب پہ مرے میں تم سے مل کے بہت دیر تک رہا خاموش جب اہتمام سے روندا گیا وجود مرا تو سامنے وہ کھڑا تھا گریز پا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون میرے علاوہ مرے وجود میں ہے

    یہ کون میرے علاوہ مرے وجود میں ہے کہ ایک شور بلا کا مرے وجود میں ہے یہ کس نے میری نظر کو بنایا آئینہ یہ نور کس نے اجالا مرے وجود میں ہے اس ایک فکر نے گھولے مری حیات میں غم تو دور کیوں نہیں جاتا مرے وجود میں ہے کوئی چراغ مری سمت بھی روانہ کرو بہت دنوں سے اندھیرا مرے وجود میں ...

    مزید پڑھیے

    اگر تم روک دو اظہار لاچاری کروں گا

    اگر تم روک دو اظہار لاچاری کروں گا جو کہنی ہے مگر وہ بات میں ساری کروں گا مرا دل بھر گیا بستی کی رونق سے سو اب میں کسی جلتے ہوئے صحرا کی تیاری کروں گا سر راہ تمنا خاک ڈالوں گا میں سر میں جو آنسو بجھ گئے ان کی عزا داری کروں گا مجھے اب آ گئے ہیں نفرتوں کے بیج بونے سو میرا حق یہ بنتا ...

    مزید پڑھیے

    میز قلم قرطاس دریچہ سناٹا

    میز قلم قرطاس دریچہ سناٹا کمرا کھڑکی زرد اجالا سناٹا میری آنکھوں میں دھندلائی گہری چپ اور چہرے پر اترا پیلا سناٹا میری آنکھوں میں لکھی تحریر پڑھو ہجر تمنا وحشت صحرا سناٹا گونج اٹھی ہے میرے اندر خاموشی نس نس میں گھٹ گھٹ کر بہتا سناٹا اس کے ساتھ چلی آتی تھیں قلقاریں اس کے بعد ...

    مزید پڑھیے

    فریب زار محبت نگر کھلا ہوا ہے

    فریب زار محبت نگر کھلا ہوا ہے تمہارے خواب کا مجھ پہ اثر کھلا ہوا ہے میں اڑ رہا ہوں فلک تا فلک خمار میں یوں کہ مجھ پہ ایک جہان دگر کھلا ہوا ہے عجیب سادہ دلی ہے مری طبیعت میں چلا سفر پہ ہوں رخت سفر کھلا ہوا ہے میں جانتا ہوں کہ کیا ہے یہ آگہی کا عذاب جو حرف حرف مری ذات پر کھلا ہوا ...

    مزید پڑھیے