Abdur Rauf Anjum

عبدالرؤف انجم

  • 1954

عبدالرؤف انجم کی غزل

    ہاتھ تو افسوس سے ایسے نہ مل ہو جائے گی

    ہاتھ تو افسوس سے ایسے نہ مل ہو جائے گی آج قسمت مہرباں نہ ہو تو کل ہو جائے گی تو وہ قطرہ بن سمندر آرزو جس کی کرے تیری یہ دل کش ادا ضرب المثل ہو جائے گی کار اسکوٹر کہاں ایمانداری میں حضور کی بہت کوشش تو بس اک سائیکل ہو جائے گی حادثے بکھرے ہوئے ہیں ہر قدم پر دھیان رکھ زندگی ورنہ سمٹ ...

    مزید پڑھیے

    زرد سوکھے ہوئے چہرے نہیں اچھے لگتے

    زرد سوکھے ہوئے چہرے نہیں اچھے لگتے وقت سے پہلے بڑھاپے نہیں اچھے لگتے اپنے ہاتھوں سے جنہیں قتل کیا ہے ہم نے ان کے چوراہوں پہ پتلے نہیں اچھے لگتے جن کا کپڑوں میں بھی عریاں نظر آتا ہے بدن ان کے دروازوں پہ پردے نہیں اچھے لگتے ماں کی ممتا میں بھی لاتی ہے کمی بیکاری گھر میں بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    قابل رشک ذات پھولوں کی

    قابل رشک ذات پھولوں کی خوب ہے کائنات پھولوں کی خوشبوؤں کا سفر طویل مگر مختصر ہے حیات پھولوں کی کر چکے ہیں وضو وہ شبنم سے ہو رہی ہے صلوٰۃ پھولوں کی سو گئے ہیں لپٹ کے کانٹوں سے کیا قیامت ہے رات پھولوں کی ہے اسیر قفس کے ہونٹوں پر ذکر کلیوں کا بات پھولوں کی ان کے ہنسنے سے کھل گئے ...

    مزید پڑھیے

    ملے ہیں آنکھ کو منظر لہو میں ڈوبے ہوئے

    ملے ہیں آنکھ کو منظر لہو میں ڈوبے ہوئے تمام شہر کے پتھر لہو میں ڈوبے ہوئے ضرور امن کا پیغام لے گیا تھا کہیں پرندہ لوٹا لئے پر لہو میں ڈوبے ہوئے عدالت ان کو ہی مظلوم کہہ کے چھوڑ نہ دے ہیں جن کے ہاتھ میں خنجر لہو میں ڈوبے ہوئے پلٹ جا تیری ضرورت ہی کیا ہے اے سیلاب ہیں میری بستی کے ...

    مزید پڑھیے