Abdur Rasheed Khan Kaifi Mahkari

عبدالرشید خان کیفی مہکاری

عبدالرشید خان کیفی مہکاری کی غزل

    ہر گھڑی اک نئی مصیبت ہے

    ہر گھڑی اک نئی مصیبت ہے ان کا آنا بھی کیا قیامت ہے دل ہے ناکامیوں کی لذت ہے نہ تمنا ہے اب نہ حسرت ہے گاہے راحت گہے مصیبت ہے ہائے کیا چیز یہ محبت ہے عرض مطلب کی ان سے جرأت ہے دل ناداں یہ کیا قیامت ہے غیر پر بھی وہی ہے رنگ ستم ہاں مجھے آپ سے شکایت ہے باز آؤ بھی عشق سے کیفیؔ عافیت ...

    مزید پڑھیے

    خیال پرسش فردا سے گھبرانا نہیں آتا

    خیال پرسش فردا سے گھبرانا نہیں آتا گنہ کرتا ہوں لیکن مجھ کو پچھتانا نہیں آتا یقین دعویٔ الفت نہیں مانا نہیں آتا مگر یہ بھی تو ہے جھوٹوں کو جھٹلانا نہیں آتا طبیعت ہے غیور ایسی کہ تشنہ کام رہتا ہوں لگی لپٹی کسی کی سن کے پی جانا نہیں آتا مری ناکامیاں دل کا چمن شاداب رکھتی ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    نئے سرے سے پھر آج کیفیؔ ہم اپنی دنیا بسا رہے ہیں

    نئے سرے سے پھر آج کیفیؔ ہم اپنی دنیا بسا رہے ہیں جو کھو چکے اس سے بے خبر ہیں جو رہ گیا وہ لٹا رہے ہیں نشاط امروز کی قسم ہے کہ دل نے سب محفلیں بھلا دیں دیے تھے ماضی نے داغ جتنے وہ خود بہ خود مٹتے جا رہے ہیں خوشا یہ دور شباب ان کا یہ دل نواز التفات ان کا کہ بے پیے آج ہر قدم پر مرے قدم ...

    مزید پڑھیے

    آرزو کو سلام کرتے ہیں

    آرزو کو سلام کرتے ہیں دل کا قصہ تمام کرتے ہیں آ سکے گا نہ لب پہ راز عشق حسن کا احترام کرتے ہیں اس فریب خیال کے صدقے آپ مجھ سے کلام کرتے ہیں اے فلک کچھ تو چین لینے دے دو گھڑی کو مقام کرتے ہیں خاک بھی اب نہیں شہیدوں کی کیوں وہ عزم خرام کرتے ہیں سب ہی دیتے ہیں جان یوں کیفیؔ آپ کیا ...

    مزید پڑھیے

    ادھر صبا نے خبر دی آ کر کہ آج ابر بہار آیا

    ادھر صبا نے خبر دی آ کر کہ آج ابر بہار آیا ادھر گریباں سیے ہوئے میں چمن میں دیوانہ وار آیا دعا ہے اپنی یہی شب غم نہ ہو کبھی اضطراب دل کم یہ زندگی زندگی کہاں پھر جو دل کو اپنے قرار آیا گلہ ستم کا جفا کا شکوہ زباں پہ آیا تمہیں کہو کب یہ کیوں ہے پھر ہم سے سرگرانی یہ دل میں کیسے غبار ...

    مزید پڑھیے

    اٹھ جانے پر تو جلوے تمہارے نہاں کہاں

    اٹھ جانے پر تو جلوے تمہارے نہاں کہاں تار نظر ہے پردہ کوئی درمیاں کہاں کل کائنات کیا ہے بجز یاس و آرزو دل سے زیادہ وسعت کون و مکاں کہاں اٹھے ہیں اب نگاہ سے پردے فریب کے جز درد و غم خوشی کا جہاں میں نشاں کہاں کیفیؔ کرشمے اپنے ہی کیف نظر کے ہیں اس دہر بے بساط میں رنگینیاں کہاں

    مزید پڑھیے

    نہ دے فریب وفا لے نہ امتحاں اپنا

    نہ دے فریب وفا لے نہ امتحاں اپنا ہے بے‌ نیاز کرم یار بد گماں اپنا پہنچ چکے تھے سر شاخ گل اسیر ہوئے لٹا ہے سامنے منزل کے کارواں اپنا ہر ایک ذرۂ عالم ہے اور سجدۂ شوق رکھیں اٹھا کے وہ اب سنگ آستاں اپنا وہی ہے عالم افسردگی وہی ہم ہیں خوشی کا جس میں گزر ہو وہ دل کہاں اپنا نگاہ یاس ...

    مزید پڑھیے

    فریب خوردۂ پیمان یار ہونا تھا

    فریب خوردۂ پیمان یار ہونا تھا رہین کشمکش انتظار ہونا تھا لکھیں ازل سے تھیں محرومیاں مقدر میں نشانۂ ستم روزگار ہونا تھا تغافل آپ کا شیوہ سہی مگر کچھ تو خیال خاطر امیدوار ہونا تھا غضب ہوا کہ سحر سے ہی پہلے دل ڈوبا ابھی کچھ اور شب انتظار ہونا تھا

    مزید پڑھیے

    آتش دل کو تیز تر دیکھا

    آتش دل کو تیز تر دیکھا آہ کا ہم نے بھی اثر دیکھا نہ ملا ترک مدعا سے سکوں چارہ گر ہم نے یہ بھی کر دیکھا دوست دشمن سبھی تھے بالیں پر ہائے تو نے نہ اک نظر دیکھا چل بسا آخرش مریض غم حاصل سعیٔ چارہ گر دیکھا

    مزید پڑھیے

    امتحاں ضبط کا پھر بزم گہہ ناز میں ہے

    امتحاں ضبط کا پھر بزم گہہ ناز میں ہے جلوۂ طور نگاہ غلط انداز میں ہے اہل دل دیدۂ تر دیکھ کے پہچان گئے میں سمجھتا تھا مری بات ابھی راز میں ہے آشیانے کو نہیں برق نوازی سے پناہ ایک ہی لطف وہی سوز میں ہے ساز میں ہے میرے مٹنے کا کریں سوگ کسی کے دشمن کیوں اداسی سی کسی جلوہ گہہ ناز میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2