Abdur Rahim Nashtar

عبد الرحیم نشتر

شاعر اور نثر نگار، اپنی کتاب ’کوکن میں اردو تعلیم‘ کے لیے بھی جانے جاتے ہیں

Well-known poet and prose writer

عبد الرحیم نشتر کی غزل

    ٹوٹ کر دیر تلک پیار کیا ہے مجھ کو

    ٹوٹ کر دیر تلک پیار کیا ہے مجھ کو آج تو اس نے ہی سرشار کیا ہے مجھ کو وہ مہکتا ہوا جھونکا تھا کہ نیزے کی انی چھو کے گزرا ہے تو خوں بار کیا ہے مجھ کو میں بھی تالاب کا ٹھہرا ہوا پانی تھا کبھی ایک پتھر نے رواں دھار کیا ہے مجھ کو مجھ سے اب اس کا تڑپنا نہیں دیکھا جاتا جس نے چلتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں

    میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں برا سمجھ لے مگر دوسروں سے اچھا ہوں میں اپنے آپ کو جچتا ہوں بے حساب مگر نہ جانے تیری نگاہوں میں کیسا لگتا ہوں بچھا رہا ہوں کئی جال ارد گرد ترے تجھے جکڑنے کی خواہش میں کب سے بیٹھا ہوں تو برف ہے تو پگھل جائے گا تمازت سے تو آگ ہے تو میں جھونکا ...

    مزید پڑھیے

    چٹان کے سائے میں کھڑا سوچ رہا ہوں

    چٹان کے سائے میں کھڑا سوچ رہا ہوں میں آب رواں کس کے لیے ٹھہر گیا ہوں پانی میں چمکتا ہے کوئی مہرباں سایہ شفاف سمندر ہوں اسے چوم رہا ہوں پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں اک سیپ تو لے آیا تھا پانی میں اتر کر مانا کہ اسے ریت پہ اب پھینک چکا ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے تھیں رونقیں بزم آرائیاں

    ہم سے تھیں رونقیں بزم آرائیاں اب سجاتے رہو اپنی تنہائیاں کوئی خوشبو نہیں کوئی نغمہ نہیں روز چلنے کو چلتی ہیں پروائیاں میری جاں میں تجھے کس طرح جانتا اس قدر وسعتیں اتنی گہرائیاں دیکھ لیجے کہیں آپ ہی تو نہیں میری آنکھوں میں ہیں چند پرچھائیاں کیسا افسوس ماتم ہو کس بات کا پھر ...

    مزید پڑھیے

    سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے

    سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے زمین سرخ ہوئی سبز کرنے آئے تھے سمجھ لیا تھا جنہیں میں نے روشنی کا سفیر وہ آستین میں خنجر چھپا کے لائے تھے مسافروں کو گھنی چھاؤں لے کے بیٹھ گئی درخت راہ کے دونوں طرف لگائے تھے مجھے بھی چاروں طرف تشنگی نے دوڑایا مری نگاہ پہ آب رواں کے سائے ...

    مزید پڑھیے

    ہزار بچ کے نکلتے کہاں ٹھکانا تھا

    ہزار بچ کے نکلتے کہاں ٹھکانا تھا ہمیں لہو کے سمندر میں ڈوب جانا تھا تبوک آج بھی آواز دے رہا ہے ہمیں عروس موت کو بڑھ کر گلے لگانا تھا ٹھٹھک کے آب رواں راستے بنا دیتا تھے شہسوار ہمیں لوٹ کے نہ آنا تھا وہ جس نے جست لگائی تھی گہرے پانی میں اسی کے ہاتھ تہہ آب کا خزانہ تھا فراز کوہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر اک نئے سفر پہ چلا ہوں مکان سے

    پھر اک نئے سفر پہ چلا ہوں مکان سے کوئی پکارتا ہے مجھے آسمان سے آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے کچھ دن تو بے گھری کا تماشہ بھی دیکھ لوں یوں بھی ہے جی اچاٹ پرانے مکان سے دونوں ہی ہم سفر تھے ہواؤں کے دوش پر پر میں ہوں چور چور سفر کی تکان سے پیروں ...

    مزید پڑھیے

    ان کالی سڑکوں پہ اکثر دھیان آیا

    ان کالی سڑکوں پہ اکثر دھیان آیا میرے من کا میل کہاں تک پھیل گیا دیکھ رہا تھا جاتے جاتے حسرت سے سوچ رہا ہوگا میں اس کو روکوں گا اس نے چلتے چلتے لفظوں کا زہراب میرے جذبوں کی پیالی میں ڈال دیا اس گھر کی دیواریں مجھ سے روٹھ گئیں جس کے اندر کا ہر سایہ میرا تھا پان کے ٹھیلے ہوٹل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2