Abdur Rahim Nashtar

عبد الرحیم نشتر

شاعر اور نثر نگار، اپنی کتاب ’کوکن میں اردو تعلیم‘ کے لیے بھی جانے جاتے ہیں

Well-known poet and prose writer

عبد الرحیم نشتر کی غزل

    مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ظلم سہوں کچھ نہ کہوں

    مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ظلم سہوں کچھ نہ کہوں حرف حق صرف کتابوں میں پڑھوں کچھ نہ کہوں ہاں وہی ہاتھ مرے جیسوں کا قاتل ہے مگر میں اسی ہاتھ کو مضبوط کروں کچھ نہ کہوں دوسرا کون جسے پیش کروں سر اپنا دشمن جاں ہی سہی قدر کروں کچھ نہ کہوں

    مزید پڑھیے

    پھول سا جسم نہ رستے میں جلایا کیجئے

    پھول سا جسم نہ رستے میں جلایا کیجئے میں صنوبر ہوں مری چھاؤں میں آیا کیجئے اور کیا چاہئے اس دور کے انسانوں کو صرف دو چار گھڑی ساتھ بتایا کیجئے آپ ساگر ہیں تو سیراب کریں پیاسے کو آپ بادل ہیں تو مجھ دشت پہ سایا کیجئے آپ سے نور کی خیرات طلب کرتے ہیں بن کے خورشید نہ پھولوں کو جلایا ...

    مزید پڑھیے

    پنچھیوں کے روبرو کیا ذکر ناداری کروں

    پنچھیوں کے روبرو کیا ذکر ناداری کروں پنکھ ٹوٹے ہی سہی اڑنے کی تیاری کروں چھوڑ جاؤں اپنے پیچھے عالم حیرت تمام موت کے پہلو میں چھپ کر شعبدہ کاری کروں ناچتی ہے جنبش انگشت پر وہ فاحشہ زندگی کہہ کر جسے خود سے ریاکاری کروں سبز پودوں کی طرف بڑھنے لگی سرکش ہوا اس کے کپڑے نوچ لوں ...

    مزید پڑھیے

    وہ شخص جس نے خود اپنا لہو پیا ہوگا

    وہ شخص جس نے خود اپنا لہو پیا ہوگا جیا تو ہوگا مگر کس طرح جیا ہوگا تمہارے شہر میں آنے کی جس کو حسرت تھی تمہارے شہر میں آ کر وہ رو پڑا ہوگا کسی کی یاد کی آہٹ سی ہے در دل پر کسی نے آج مرا نام لے لیا ہوگا وہ اجنبی تری بانہوں میں جو رہا شب بھر کسے خبر کہ وہ دن بھر کہاں رہا ہوگا تمہارے ...

    مزید پڑھیے

    دشت افکار میں سوکھے ہوئے پھولوں سے ملے

    دشت افکار میں سوکھے ہوئے پھولوں سے ملے کل تری یاد کے معتوب رسولوں سے ملے اپنی ہی ذات کے صحرا میں سلگتے ہوئے لوگ اپنی پرچھائیں سے ٹکرائے ہیولوں سے ملے گاؤں کی سمت چلی دھوپ دوشالا اوڑھے تاکہ باغوں میں ٹھٹھرتے ہوئے پھولوں سے ملے کون اڑتے ہوئے رنگوں کو گرفتار کرے کون آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے

    غیر آباد علاقے کی فضا کیسی ہے

    غیر آباد علاقے کی فضا کیسی ہے دل سے اٹھتی ہے جو رہ رہ کے صدا کیسی ہے میرے پیروں سے لپٹتی ہی رہی موج رواں ریت سے کر نہ سکی مجھ کو جدا کیسی ہے ٹوٹ کر آئی ہے لہرائی ہے چاروں جانب یہ برستی ہی نہیں کالی گھٹا کیسی ہے پتیاں دھوپ میں کمھلا گئیں پھیکے ہوئے رنگ چھاؤں اتری ہی نہیں آب و ہوا ...

    مزید پڑھیے

    اگر ہو خوف زدہ طاقت بیاں کیسی

    اگر ہو خوف زدہ طاقت بیاں کیسی نوائے حق نہ سنائے تو پھر زیاں کیسی اٹھاؤ حرف صداقت لہو کو گرم کرو جو تیر پھینک نہیں سکتی وہ کماں کیسی انہیں یہ فکر کہ میری صدا کو قید کریں مجھے یہ رنج کہ اتنی خموشیاں کیسی ہوا کے رخ پہ لیے بیٹھا ہوں چراغ اپنا مرے خدا نے مجھے بخش دی اماں کیسی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے ہاتھ میں پتھر دبا کر بھیج دیتا ہے

    ہوا کے ہاتھ میں پتھر دبا کر بھیج دیتا ہے مرا انعام وہ مجھ کو برابر بھیج دیتا ہے نظر آتا ہے میرا ہاتھ ہر تخریب میں اس کو کوئی تہمت کہیں اٹھے مرے سر بھیج دیتا ہے مجھے بھی اب کسی تعمیر کا سودا نہیں ہوتا اسے بھی ضد ہے بربادی کے منظر بھیج دیتا ہے کھلونوں سے بہل جاتا ہوں یہ معلوم ہے ...

    مزید پڑھیے

    بے روزگار ہی سہی خوددار میں بھی ہوں

    بے روزگار ہی سہی خوددار میں بھی ہوں اپنی رہ حیات میں دیوار میں بھی ہوں دو چار سال اور ہے ناقدریٔ سخن مردہ پرست شہر کا فن کار میں بھی ہوں تشکیک دل میں سر میں جنوں لب پہ گالیاں کیا روح عصر کی طرح بیمار میں بھی ہوں شہر منافقت میں بسر کر رہا ہوں میں لگتا ہے اپنے عہد کا اوتار میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں

    وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں زمیں پہ گرتے ہیں کٹ کٹ کے سر فرشتوں کے عجیب زلزلہ آیا ہے آسمانوں میں سڑک پہ آ گئے سب لوگ بلبلاتے ہوئے نہ جانے کون مکیں آ گئے مکانوں میں پھٹے پرانے بدن سے کسے خرید سکوں سجے ہیں کانچ کے پیکر بڑی دکانوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2