Abdullah Kamal

عبد اللہ کمال

نئی غزل کے نمائندہ شاعر

Leading modern Urdu poet

عبد اللہ کمال کی غزل

    لفظوں میں اک نئے سفر کا کرتا ہے آغاز بدن

    لفظوں میں اک نئے سفر کا کرتا ہے آغاز بدن نقطہ نقطہ پھیل کے مجھ کو دیتا ہے آواز بدن ہر پل ٹوٹ بکھرنا خدشہ ٹھیس لگے تو کانپ اٹھتا ہے شیشہ شیشہ روپ لیے ہے پتھر کا دم ساز بدن اڑتا بادل ڈھلتی چھایا اک اک پل میں سو سو کایا اڑتے روز و شب سے آگے کرتا ہے پرواز بدن انجانی ان دیکھی صدائیں ...

    مزید پڑھیے

    حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے

    حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے مرے وجود کو یا رب نیا لبادہ دے غم حیات کو پھیلا دے آسمانوں تک دل تباہ کو وسعت بھی کچھ زیادہ دے مجھے قرار نہ دے تو پس غبار نفس میں شہ سوار ہوں میدان بھی کشادہ دے نہ چھین مجھ سے مرا ذوق خود نوردی بھی مرے قدم کو بھی منزل نہ دے ارادہ دے مرے رفیقوں کو ...

    مزید پڑھیے

    خوش شناسی کا صلہ کرب کا صحرا ہوں میں

    خوش شناسی کا صلہ کرب کا صحرا ہوں میں کون پہچانے کہ اک دشت تمنا ہوں میں سرد پانی کی زباں چاٹتی رہتی ہے مجھے کہر میں ڈوبا ہوا کوئی جزیرہ ہوں میں اپنی ویران سی آنکھوں کو سجا لو مجھ سے پھر نہ ہاتھ آؤں گا اڑتا ہوں سپنا ہوں میں بھول جاؤ گے مجھے تم بھی سحر ہونے تک آخر شب کا کوئی ٹوٹتا ...

    مزید پڑھیے

    عجیب شخص ہے دھرتی پہ آسمان سا ہے

    عجیب شخص ہے دھرتی پہ آسمان سا ہے خدا مقام نہیں پھر بھی لا مکان سا ہے اگے جو صبح کا سورج تو اک مشین ہے وہ ڈھلے جو شام تو پھر جسم کی تکان سا ہے سکوت دشت تمنا ہے اس کو جائے پناہ نواح عارض و گیسو میں بے نشان سا ہے برہنہ رہتا ہے شمشیر بے اماں کی طرح ہر ایک شخص یہاں اس سے بد گمان سا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہونے کا اک اک پل تجربہ کرتے رہے

    اپنے ہونے کا اک اک پل تجربہ کرتے رہے نوک نیزہ پر بھی ہم رقص انا کرتے رہے اک مسلسل جنگ تھی خود سے کہ ہم زندہ ہیں آج زندگی ہم تیرا حق یوں بھی ادا کرتے رہے ہاتھ میں پتھر نہ تھا چہرے پہ وحشت بھی نہ تھی پھر وہ کیا تھا جس پہ ہم یوں قہقہہ کرتے رہے کچھ نہ کچھ تو پیش منظر میں بھی شاید تھا ...

    مزید پڑھیے

    بنائے ارض و فلک حرف ابتدا ہوں میں

    بنائے ارض و فلک حرف ابتدا ہوں میں بکھر گیا تو سمجھ لو کہ انتہا ہوں میں یوں ہی سلگتے رہو آگ کی قبا ہوں میں تمہیں بچاؤں‌ گا کیا خود سلگ رہا ہوں میں اٹھائے پھرتا ہوں بے شخصیت بدن اپنا اور اپنے گمشدہ چہرے کو ڈھونڈھتا ہوں میں یہ کہر کہر سے چہرے دھواں دھواں آواز تمہارے شہر میں شاید ...

    مزید پڑھیے

    بلندیوں کے دھندلکے میں تھا خدا سا لگا

    بلندیوں کے دھندلکے میں تھا خدا سا لگا جو میں قریب سے گزرا تو وہ شناسا لگا نہ کوئی جسم تھا اس کا نہ کوئی چہرہ مگر جہت جہت سے ابھرتی ہوئی صدا سا لگا عقب میں چھوڑتا آیا شکستگی کا غبار کہ سنگ میل بھی مجھ کو اک آئنہ سا لگا بہت نشیب و فراز اس کے طے کیے میں نے وہ سر سے پاؤں تلک ایک ...

    مزید پڑھیے

    سلگ رہا ہے کوئی شخص کیوں عبث مجھ میں

    سلگ رہا ہے کوئی شخص کیوں عبث مجھ میں بجھے گا کیسے ابھی شعلۂ نفس مجھ میں عجیب درد سا جاگا ہے بائیں پسلی میں عجب شرار‌ طلب سا ہے پیش و پس مجھ میں میں شاخ شاخ سے لپٹوں شجر شجر چوموں پنپ رہی ہے عجب لذت ہوس مجھ میں نہ کوئی نقش یقیں ہے نہ کوئی عکس گماں دھواں دھواں ہے ابھی سے نیا برس ...

    مزید پڑھیے

    انا رہی نہ مری مطلق العنانی کی

    انا رہی نہ مری مطلق العنانی کی مرے وجود پہ اک دل نے حکمرانی کی کرم کیا کہ بکھرنے دیا نہ اس نے مجھے مرے جنوں کی حفاظت کی مہربانی کی پہاڑ کاٹنا اک مشغلہ تھا بچپن سے کڑے دنوں میں بھی تیشے سی نوجوانی کی بدن کہ اڑنے کو پر تولتا پرندہ سا کسی کمان سی چڑھتی ندی جوانی کی کمالؔ میں نے تو ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھوں کو امیدوں سے سجائے رکھنا

    اپنی آنکھوں کو امیدوں سے سجائے رکھنا جلتی راتوں میں کوئی خواب بچائے رکھنا لوٹ کر آؤں گا پھر گاؤں تمہارے اک دن اپنے دروازے پہ اک دیپ جلائے رکھنا اجنبی جان کے پتھر نہ سواگت کو بڑھیں اپنی گلیوں کو مرا نام بتائے رکھنا سونے ساون میں ستائے گی بہت پروائی درد کو دل میں مگر اپنے دبائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2