Abdullah Bahar

عبداللہ بہار

  • 1962

عبداللہ بہار کی غزل

    اہل دل بھی دیکھیے اب کیا سے کیا کرنے لگے

    اہل دل بھی دیکھیے اب کیا سے کیا کرنے لگے شیشہ گر بھی پتھروں سے مشورہ کرنے لگے دے دیا ہے تجربات زندگی کو رخ نیا آج ہم اپنے تئیں ہر فیصلہ کرنے لگے مسئلوں کا حل نظر آئے گا کیسے دوستو ہم در اغیار پر جب التجا کرنے لگے اس لیے وہ جوجھتے ہیں روز و شب حالات سے جو ذرا سی بات پر جھگڑا کھڑا ...

    مزید پڑھیے

    آپ رسوا ہوئے زمانے میں

    آپ رسوا ہوئے زمانے میں اک ذرا آئینہ دکھانے میں وہ کسی سے بھی ڈر نہیں سکتا حق پہ چلتا ہے جو زمانے میں تو نے پرکھا بھی ہے کبھی اس کو کتنے جوہر ہیں اس دوانے میں پاس رکھنا ہے کچھ انا کا بھی یہ قباحت ہے سر جھکانے میں قہر چاروں طرف برستا ہے اک ذرا اس کے روٹھ جانے میں ظلم پر بڑھ کے ...

    مزید پڑھیے

    سینے میں سانس آنکھوں میں جب تک کے دم رہے

    سینے میں سانس آنکھوں میں جب تک کے دم رہے باطل کے سامنے نہ مرا سر یہ خم رہے موسم بھی دل فریب ہے ماحول بھی حسین لگ جا گلے کہ کچھ تو وفا کا بھرم رہے کردار پر نہ اپنے کبھی حرف آ سکا دشمن کی محفلوں میں بھی ہم محترم رہے ویسے تو یہ جہان فسانوں کا ڈھیر ہے لیکن فسانے اپنے بہت ہی اہم ...

    مزید پڑھیے

    نثار دل بھی کیا اور ہر خوشی دے دی

    نثار دل بھی کیا اور ہر خوشی دے دی لو آج ہم نے تمہیں اپنی زندگی دے دی یہ کیا کیا کہ نظر سے نظر ملی بھی نہ تھی قرار لوٹ لیا دل کو بے کلی دے دی ہمارے حسن تخیل کا احترام کرو تمہارے عزم کے پھولوں کو تازگی دے دی جلا کے دل کے نشیمن کو اپنے ہاتھوں سے تمہارے شوق کے جذبوں کو روشنی دے دی یہ ...

    مزید پڑھیے