Abdul Wahab Sukhan

عبد الوہاب سخن

عبد الوہاب سخن کی نظم

    تھم گئی تال انفاس کی

    وہ ایک فن کار تھا جس کی آواز برسوں تلک محبت کے نغمے سناتی رہی امن کے گیت گاتی رہی جس کی آواز سے سر مکمل ہوئے جس کی آواز نے لے کو بخشی جلا اس کی آواز پیغام صبح مسرت بھی تھی اس کی آواز اک درد شام غریباں بھی تھی وہ ایک فن کار تھا وقت کے ساز پر گا رہا تھا غزل مسکرانے لگی جس کو سن کے ...

    مزید پڑھیے

    وہی تو لمحہ تھا فیصلے کا

    رفاقتوں کے طویل رستے پہ چلتے چلتے بہت ہی اکتا گیا تھا جاناں تو یہ بھی اچھا ہوا کہ اک دن وہ موڑ آیا کہ جس کی پگڈنڈیاں جدا تھیں بس اک اشارہ تھی وہ ہی ساعت وہی تو لمحہ تھا فیصلے کا وہ ہاتھ اب ہم کو چھوڑنا تھے کہ جن کو تھامے بہت دنوں سے رفاقتوں کے سفر میں دونوں ہی ہم قدم تھے تو پھر وہ ...

    مزید پڑھیے