کسی طلب میں ہوا میں نہ در بدر اب کے
کسی طلب میں ہوا میں نہ در بدر اب کے رہا نگاہ کا محور بس اپنا گھر اب کے نہ جانے کتنے ہی رستے تھے منتظر لیکن سمٹ کے رہ گیا قدموں میں ہی سفر اب کے یہ انتظار کی شدت نہ تھی کبھی پہلے محیط لگتا ہے صدیوں پہ لمحہ بھر اب کے بہار لالہ و گل کے قصیدے ختم ہوئے خزاں کا مرثیہ پڑھتا ہے ہر شجر اب ...