Abdul Wahab Sukhan

عبد الوہاب سخن

عبد الوہاب سخن کی غزل

    کسی طلب میں ہوا میں نہ در بدر اب کے

    کسی طلب میں ہوا میں نہ در بدر اب کے رہا نگاہ کا محور بس اپنا گھر اب کے نہ جانے کتنے ہی رستے تھے منتظر لیکن سمٹ کے رہ گیا قدموں میں ہی سفر اب کے یہ انتظار کی شدت نہ تھی کبھی پہلے محیط لگتا ہے صدیوں پہ لمحہ بھر اب کے بہار لالہ و گل کے قصیدے ختم ہوئے خزاں کا مرثیہ پڑھتا ہے ہر شجر اب ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا

    ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا جو دسترس میں ہماری ہنر نہیں ہوتا میں روز اس سے یہیں ہم کلام ہوتا ہوں درون روح کسی کا گزر نہیں ہوتا جلا دئے ہیں کسی نے پرانے خط ورنہ فضا میں ایسا تو رقص شرر نہیں ہوتا محبتوں کے کئی اسم میں نے پڑھ ڈالے عجب طلسم ہے وا اس کا در نہیں ہوتا اگر میں شب ...

    مزید پڑھیے

    وہ پہلے فکر کو حرف کمال دیتا ہے

    وہ پہلے فکر کو حرف کمال دیتا ہے پھر آگہی سے سخن کو اجال دیتا ہے مجھی کو لوگ بہت سخت جاں سمجھتے ہیں مجھی پہ ہر کوئی پتھر اچھال دیتا ہے وہ عکس بن کے اترتا ہے جب بھی آنکھوں میں تمام آئنے دل کے اجال دیتا ہے محبتوں کا اسے میری اعتبار نہیں مگر رقیبوں کو میری مثال دیتا ہے کسی کو پھول ...

    مزید پڑھیے

    یہ سانحہ بھی عجب ہو گیا ہے رستے میں

    یہ سانحہ بھی عجب ہو گیا ہے رستے میں جو رہنما تھا وہی کھو گیا ہے رستے میں کسی بھی آبلہ پا کو نہ مل سکی تسکین عجیب خار کوئی بو گیا ہے رستے میں عتاب جاں ہوئی گرد سفر کسی کے لئے کسی کو ابر کرم دھو گیا ہے رستے میں حدی کی لے کرو مدھم اے قافلے والو تھکن سے چور کوئی سو گیا ہے رستے ...

    مزید پڑھیے

    سفر میں تیرہ شبی کے عذاب اتنے ہیں

    سفر میں تیرہ شبی کے عذاب اتنے ہیں اسی لیے تو پریشان خواب اتنے ہیں جدھر بھی دیکھیے دشت تحیرات سا ہے جدھر بھی جائیے اب انقلاب اتنے ہیں تمہارے ساتھ چلیں ہم نے بارہا سوچا ہماری جان کو لیکن عذاب اتنے ہیں قدم قدم پہ ہے امکاں فریب کا یارو نظر نظر میں یہاں تو سراب اتنے ہیں ابھی ہے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی موسم بھی حسب حال نہیں

    کوئی موسم بھی حسب حال نہیں پھر بھی دل میں کوئی ملال نہیں ہو گئے زخم اس قدر مانوس کوئی تدبیر اندمال نہیں شکوۂ دل میں رات بیت گئی ہجر سے کم ترا وصال نہیں اب ذرا دیر کو ٹھہر جاؤ اب ستاروں کی ویسی چال نہیں لاکھ تمثیلیں استعارے ہوں پھر بھی تیری کوئی مثال نہیں ضبط ہے دیدنی سخن ...

    مزید پڑھیے

    نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر

    نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر زمین دل پہ کبھی پاؤں بھی پسارا کر کنارے لگ گئی میرے بھی شوق کی کشتی مرے رفیق تو اب شوق سے کنارا کر کسی کے ہجر میں تصویر بن گیا ہوں میں حسین شام کے منظر مجھے نہارا کر یہی ہے لطف انا کا یہی ہے دل داری کہ بازیوں کو کبھی جیت کے بھی ہارا کر نکال ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3