Abdul Wahab Sukhan

عبد الوہاب سخن

عبد الوہاب سخن کی غزل

    نئے ہیں وصل کے موسم محبتیں بھی نئی

    نئے ہیں وصل کے موسم محبتیں بھی نئی نئے رقیب ہیں اب کے عداوتیں بھی نئی جواں دلوں میں پنپتے ہیں اب نئے رومان حسین چہروں پہ لکھی عبارتیں بھی نئی وہ مجھ کو چھو کے پشیماں ہے اجنبی کی طرح ادائیں اس کی اچھوتی شرارتیں بھی نئی وہ جس نے سر میں دیا انقلاب کا سودا مرے لہو کو وہ بخشے ...

    مزید پڑھیے

    پتھر تمام شہر ستم گر کے ہو گئے

    پتھر تمام شہر ستم گر کے ہو گئے جتنے تھے آئنے وہ مرے گھر کے ہو گئے شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے کچھ لوگ اس خیال سے پتھر کے ہو گئے محور سے ان کو کھینچ نہ پائی کوئی کشش شوق طواف میں جو ترے در کے ہو گئے وہ اپنے لا شعور سے ہجرت نہ کر سکا میرے ارادے سات سمندر کے ہو گئے سفاک موسموں ...

    مزید پڑھیے

    اس کا لہجہ کرخت ہوتا گیا

    اس کا لہجہ کرخت ہوتا گیا دل ہمارا بھی سخت ہوتا گیا زخم کا ایک ننھا سا پودا رفتہ رفتہ درخت ہوتا گیا تھا سفر یوں تو بے سر و ساماں شوق منزل ہی رخت ہوتا گیا رہبری کا ہر اک علمبردار خوگر تاج و تخت ہوتا گیا تیری خاطر سمیٹ کر رکھا دل مگر لخت لخت ہوتا گیا عشق میں جس مقام سے گزرے مرحلہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ برنگ اعتبار آنکھوں میں ہے

    وہ برنگ اعتبار آنکھوں میں ہے ایک تسکیں اک قرار آنکھوں میں ہے میں نئی رت کے سفر پر ہوں مگر پچھلے موسم کا خمار آنکھوں میں ہے خیر مقدم کہہ رہے ہیں سرخ لب چاہتوں کا اشتہار آنکھوں میں ہے روشنی کی طرح وہ رخصت ہوا جگنوؤں کی اک قطار آنکھوں میں ہے ڈوبتے لمحوں کی کشتی پر سوار کاروان ...

    مزید پڑھیے

    گرچہ باطل کو نا پسند رہا

    گرچہ باطل کو نا پسند رہا نعرۂ حق مگر بلند رہا جس نے عرض نیاز بھی نہ سنی دل اسی کا نیاز مند رہا پی لیا زہر تلخیٔ ایام پھر بھی لہجہ ہمارا قند رہا بے حسی تھی مرے تعاقب میں اس لیے میں فصیل بند رہا سرنگوں رتجگوں کو ہونا پڑا پرچم خواب سر بلند رہا کیا ملے اس سے ایک بار سخنؔ موج میں ...

    مزید پڑھیے

    لب خموش سے اس نے خوش آمدید کہا

    لب خموش سے اس نے خوش آمدید کہا اسی کو لوگوں نے پھر گفت اور شنید کہا بہار لالہ و گل سے خزاں کی آہٹ تک ہر ایک واقعہ موسم نے چشم دید کہا جنوں میں پہلے تو اقرار کر لیا اس نے جنوں کی بات کو پھر عقل سے بعید کہا حسین تبصرہ موسم پہ جب تمام ہوا تو اس نے کان میں چپکے سے کچھ مزید کہا ترا ...

    مزید پڑھیے

    مری چاہتوں کے سوال پر کوئی مسکرا کے چلا گیا

    مری چاہتوں کے سوال پر کوئی مسکرا کے چلا گیا مجھے پھر سے موسم وصل کا وہ حسین خواب دکھا گیا دل میزبان میں رنج کا یہی مدتوں سے ہے سلسلہ کوئی دن میں آ کے ٹھہر گیا کوئی رات رہ کے چلا گیا وہ ملن کی اولیں ساعتیں وہ کسی کا لمس عنایتیں کبھی وہ خمار سے تر ہوا کبھی مجھ پہ نشہ سا چھا گیا یہی ...

    مزید پڑھیے

    نئی غزل کا نئی فکر و آگہی کا ورق

    نئی غزل کا نئی فکر و آگہی کا ورق زمانہ کھول رہا ہے سخنوری کا ورق محبتوں کے حسیں باب سے ذرا آگے کتاب زیست میں ملتا ہے گمرہی کا ورق سنہری ساعتیں منسوب ہیں ترے غم سے پلٹ کے دیکھ ذرا میری زندگی کا ورق کتاب وقت کی آندھی میں کھل گئی شاید ہوا میں اڑ گیا دیرینہ دوستی کا ورق تلاوتوں ...

    مزید پڑھیے

    دام سو رکھتے ہیں لفظوں میں سخنور مجھ سے

    دام سو رکھتے ہیں لفظوں میں سخنور مجھ سے بات کیجے گا ذرا سوچ سمجھ کر مجھ سے مجھے کھلتی نہیں تنہائی سفر کی یوں بھی گفتگو کرتے ہیں سب راہ کے پتھر مجھ سے وہ جو ہیں لذت تفہیم سخن سے واقف شعر سنتے ہیں وہی لوگ مکرر مجھ سے مجھ کو ڈر تھا کہ کہیں فاصلے بڑھ جائیں مگر وہ قریب آ گیا کچھ اور ...

    مزید پڑھیے

    جب امن کے آثار دیکھتے ہیں

    جب امن کے آثار دیکھتے ہیں ماحول شرر بار دیکھتے ہیں ہے فرض یہاں کس پہ شہریاری سب اپنی ہی دستار دیکھتے ہیں آئنہ تو سب دیکھتے ہیں لیکن ہم آئنہ بردار دیکھتے ہیں میں میل کا پتھر ہوں مجھ کو رہرو مڑ مڑ کے کئی بار دیکھتے ہیں جو لوگ تھے بدنام شہر بھر میں وہ لوگ بھی کردار دیکھتے ہیں وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3