Abdul Wahab Sukhan

عبد الوہاب سخن

عبد الوہاب سخن کے تمام مواد

27 غزل (Ghazal)

    نئے ہیں وصل کے موسم محبتیں بھی نئی

    نئے ہیں وصل کے موسم محبتیں بھی نئی نئے رقیب ہیں اب کے عداوتیں بھی نئی جواں دلوں میں پنپتے ہیں اب نئے رومان حسین چہروں پہ لکھی عبارتیں بھی نئی وہ مجھ کو چھو کے پشیماں ہے اجنبی کی طرح ادائیں اس کی اچھوتی شرارتیں بھی نئی وہ جس نے سر میں دیا انقلاب کا سودا مرے لہو کو وہ بخشے ...

    مزید پڑھیے

    پتھر تمام شہر ستم گر کے ہو گئے

    پتھر تمام شہر ستم گر کے ہو گئے جتنے تھے آئنے وہ مرے گھر کے ہو گئے شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے کچھ لوگ اس خیال سے پتھر کے ہو گئے محور سے ان کو کھینچ نہ پائی کوئی کشش شوق طواف میں جو ترے در کے ہو گئے وہ اپنے لا شعور سے ہجرت نہ کر سکا میرے ارادے سات سمندر کے ہو گئے سفاک موسموں ...

    مزید پڑھیے

    اس کا لہجہ کرخت ہوتا گیا

    اس کا لہجہ کرخت ہوتا گیا دل ہمارا بھی سخت ہوتا گیا زخم کا ایک ننھا سا پودا رفتہ رفتہ درخت ہوتا گیا تھا سفر یوں تو بے سر و ساماں شوق منزل ہی رخت ہوتا گیا رہبری کا ہر اک علمبردار خوگر تاج و تخت ہوتا گیا تیری خاطر سمیٹ کر رکھا دل مگر لخت لخت ہوتا گیا عشق میں جس مقام سے گزرے مرحلہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ برنگ اعتبار آنکھوں میں ہے

    وہ برنگ اعتبار آنکھوں میں ہے ایک تسکیں اک قرار آنکھوں میں ہے میں نئی رت کے سفر پر ہوں مگر پچھلے موسم کا خمار آنکھوں میں ہے خیر مقدم کہہ رہے ہیں سرخ لب چاہتوں کا اشتہار آنکھوں میں ہے روشنی کی طرح وہ رخصت ہوا جگنوؤں کی اک قطار آنکھوں میں ہے ڈوبتے لمحوں کی کشتی پر سوار کاروان ...

    مزید پڑھیے

    گرچہ باطل کو نا پسند رہا

    گرچہ باطل کو نا پسند رہا نعرۂ حق مگر بلند رہا جس نے عرض نیاز بھی نہ سنی دل اسی کا نیاز مند رہا پی لیا زہر تلخیٔ ایام پھر بھی لہجہ ہمارا قند رہا بے حسی تھی مرے تعاقب میں اس لیے میں فصیل بند رہا سرنگوں رتجگوں کو ہونا پڑا پرچم خواب سر بلند رہا کیا ملے اس سے ایک بار سخنؔ موج میں ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    تھم گئی تال انفاس کی

    وہ ایک فن کار تھا جس کی آواز برسوں تلک محبت کے نغمے سناتی رہی امن کے گیت گاتی رہی جس کی آواز سے سر مکمل ہوئے جس کی آواز نے لے کو بخشی جلا اس کی آواز پیغام صبح مسرت بھی تھی اس کی آواز اک درد شام غریباں بھی تھی وہ ایک فن کار تھا وقت کے ساز پر گا رہا تھا غزل مسکرانے لگی جس کو سن کے ...

    مزید پڑھیے

    وہی تو لمحہ تھا فیصلے کا

    رفاقتوں کے طویل رستے پہ چلتے چلتے بہت ہی اکتا گیا تھا جاناں تو یہ بھی اچھا ہوا کہ اک دن وہ موڑ آیا کہ جس کی پگڈنڈیاں جدا تھیں بس اک اشارہ تھی وہ ہی ساعت وہی تو لمحہ تھا فیصلے کا وہ ہاتھ اب ہم کو چھوڑنا تھے کہ جن کو تھامے بہت دنوں سے رفاقتوں کے سفر میں دونوں ہی ہم قدم تھے تو پھر وہ ...

    مزید پڑھیے