Abdul Qavi Ziya

عبدالقوی ضیا

کنیڈا میں مقیم اردو شاعروں میں شامل

An Urdu poet residing in Canada

عبدالقوی ضیا کی غزل

    لوگ جام و سبو میں کھوئے رہے

    لوگ جام و سبو میں کھوئے رہے ہم تری آرزو میں کھوئے رہے زندگی کی تھی جستجو ہم کو عمر بھر جستجو میں کھوئے رہے محفل رنگ و بو تو مل نہ سکی خواہش رنگ و بو میں کھوئے رہے اشک جو بچ رہے تھے آنکھوں میں حرمت آبرو میں کھوئے رہے ہر طرف تھا حصار کانٹوں کا پھول فکر نمو میں کھوئے رہے کیا تصور ...

    مزید پڑھیے

    تری آنکھوں کا منظر سامنے ہے

    تری آنکھوں کا منظر سامنے ہے میں پیاسا ہوں سمندر سامنے ہے انا بڑھنے نہیں دیتی ہے آگے مرے رستے کا پتھر سامنے ہے خیالوں سے ہے کوسوں دور لیکن نگاہوں میں وہ اکثر سامنے ہے میں خود سے روز ہوتا ہوں بغل گیر مرا اپنا ہی پیکر سامنے ہے نہ جلوہ ہے نہ آئینہ ہے کوئی یہ حیرت ہے وہ کیونکر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بستی کوئی قریہ نہیں ہے

    کوئی بستی کوئی قریہ نہیں ہے جہاں میں نے تجھے پایا نہیں ہے جدھر دیکھو سکوت بے کراں ہے سر مقتل تو سناٹا نہیں ہے دیے بجھ جائیں تو بجھتی نہیں ہے ہوا کو کیوں یہ اندازہ نہیں ہے عجب بستی ہے جس میں آ بسے ہیں سبھی جھوٹے کوئی سچا نہیں ہے ضیاؔ میں نے جسے سمجھا ہے برسوں اسے دیکھا مگر ...

    مزید پڑھیے

    سوچتا ہوں کہ وہ کیسا ہوگا

    سوچتا ہوں کہ وہ کیسا ہوگا آئینہ ہوگا کہ چہرا ہوگا جب کھلی ہوتی ترے دوش پہ زلف ابر بھی ٹوٹ کے برسا ہوگا جس کے جلووں کی کوئی حد ہی نہیں میں نے کتنا اسے چاہا ہوگا لوگ فردوس جسے کہتے ہیں اس زمیں کا کوئی ٹکڑا ہوگا جام کیوں ہاتھ سے گر جاتا ہے میکدے میں کوئی پیاسا ہوگا محفلیں کرتی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں ہیں جو خواب کوئی جانتا نہیں

    آنکھوں میں ہیں جو خواب کوئی جانتا نہیں اس دل کا اضطراب کوئی جانتا نہیں ہے اپنی اپنی پیاس کا ہر ایک کو خیال دریا بھی ہے سراب کوئی جانتا نہیں یہ جانتے ہیں لوگ کہ انجام کیا ہوا کیوں آیا انقلاب کوئی جانتا نہیں ذرے کی روشنی کو سمجھتے ہیں سب حقیر ہے وہ بھی آفتاب کوئی جانتا نہیں اک ...

    مزید پڑھیے

    حرف میں خون جگر کس کا ہے

    حرف میں خون جگر کس کا ہے ہم سے پوچھو یہ ہنر کس کا ہے اجنبی ہے نہ شناسا کوئی ایک سایہ سا مگر کس کا ہے ہجر کی شب کو لہو ہم نے دیا اب کہو رنگ سحر کس کا ہے خلوت جاں میں ہے اک ہلچل سی اس طرف قصد سفر کس کا ہے تو اگر سامنے موجود نہیں حسن تا حد نظر کس کا ہے سنگ ہی سنگ ہیں آنگن میں ضیاؔ پس ...

    مزید پڑھیے

    محبت جاگ اٹھی رگ رگ میں ارمانوں کو نیند آئی

    محبت جاگ اٹھی رگ رگ میں ارمانوں کو نیند آئی حقیقت نے نقاب الٹی تو افسانوں کو نیند آئی چھلکتی ہی رہی مے دور چلتا ہی رہا لیکن رکی گردش ان آنکھوں کی تو پیمانوں کو نیند آئی بچھے تھے پھول بھی ہر موڑ پر فصل بہاراں میں مگر آئی تو کانٹوں پر ہی دیوانوں کو نیند آئی سر محفل رہا اک رت جگے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2