Abdul Qadir

عبدالقادر

عبدالقادر کی نظم

    سیاروں کی محفل

    زمین مری نظروں میں اے مریخ تیرا درجہ اعلیٰ ہے بلندی پر تو رہتا ہے تری قسمت بھی بالا ہے مریخ بلندی اور پستی کا کبھی دھوکا نہیں کھائیں زمیں اوپر دکھائی دے اگر مریخ پر آئیں زمین تجھے مانا ہے دیوتا جنگ کا نادان لوگوں نے تباہی کا دیا الزام تجھ کو روم والوں نے تجھے بھارت کے دانشور سدا ...

    مزید پڑھیے

    ماتھے کا جھومر

    شہنائی بجاتا ہوا اک ننھا سا مچھر پہنچا کسی میدان میں نالے سے نکل کر میدان میں کچھ دیر بھٹکتا رہا مچھر کچھ کام نہیں تھا تو مٹکتا رہا مچھر موصوف نے اک بیل کو بیٹھا ہوا پایا تب دل میں سواری کا ذرا شوق سمایا آرام سے وہ بیٹھ گیا سینگ کے اوپر پھر اپنے خیالات میں گم ہو گیا مچھر دو گھنٹے ...

    مزید پڑھیے

    ای میل

    یوں ہی ای میل سے آ جاتے ہیں سادہ سے خطوط سادگی اتنی کہ خوشبو نہ وے رنگ لئے ہاں وہی رنگ جو تیرے لب و رخسار کا ہے اب تو کاغذ پہ کوئی نقش ابھرتا ہی نہیں ہاں وہی نقش تیرے مہندی لگے ہاتھوں کا اب کسی حرف سے آتی نہیں خوشبو تیری کیسے الفاظ ہیں یہ جو تیری سانسوں کی مہک بن سمیٹے ہوئے چپ چاپ ...

    مزید پڑھیے

    بچپن کا وہ زمانہ

    آتا ہے یاد مجھ کو بچپن کا وہ زمانہ رہتا تھا ساتھ میرے خوشیوں کا جب خزانہ ہر روز گھر میں ملتے عمدہ لذیذ کھانے بے محنت و مشقت حاصل تھا آب و دانہ بچوں کے ساتھ رہنا خوشیوں کے گیت گانا دل میں نہ تھی کدورت تھا سب سے دوستانہ مہندی کے پتے لانا اور پیس کر لگانا پھر سرخ ہاتھ اپنے ہر ایک کو ...

    مزید پڑھیے

    گھر کی جھلک

    جھلک تو دیکھو ہمارے گھر کی یہاں ہیں نانی یہاں ہیں تائی ہمارے ماں باپ اور چچا ہیں یہاں ہیں بہنیں یہاں ہیں بھائی ہمارا گھر ہے حسین گلشن خوشی کی کلیاں کھلی ہوئی ہیں وفا کی خوشبو بسی ہوئی ہے ہوئی نہ ہوگی یہاں لڑائی ہمارے ابو کی دیکھو عظمت ہر ایک کرتا ہے ان کی عزت نظر میں ان کی ہیں سب ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ میں بارش

    کل رات نہ جانے کیوں کیسے ایک عجیب سی خواہش ہونے لگی وہ شہر جو ہم سے چھوٹا ہے اسی شہر کی خواہش ہونے لگی وہ شہر جو ہم سے چھوٹا ہے اب اس کا نظارہ کیسا ہے کس سے پوچھوں کیسے پوچھوں ہر جان سے پیارا کیسا ہے کیا اب بھی ہمارے ہمجولی بے کار پڑے ہیں گاؤں میں کیا اب بھی بیڑیاں لٹکی ہیں ان دوڑنے ...

    مزید پڑھیے