مدتوں دیکھ لیا چپ رہ کے
مدتوں دیکھ لیا چپ رہ کے آؤ کچھ ان سے بھی دیکھیں کہہ کے اس تغافل پہ بھی اللہ اللہ یاد آتا ہے کوئی رہ رہ کے ہے روانی کی بھی حد اک آخر موج جائے گی کہاں تک بہہ کے سچ تو یہ ہے کہ ندامت ہی ہوئی راز کی بات کسی سے کہہ کے
مدتوں دیکھ لیا چپ رہ کے آؤ کچھ ان سے بھی دیکھیں کہہ کے اس تغافل پہ بھی اللہ اللہ یاد آتا ہے کوئی رہ رہ کے ہے روانی کی بھی حد اک آخر موج جائے گی کہاں تک بہہ کے سچ تو یہ ہے کہ ندامت ہی ہوئی راز کی بات کسی سے کہہ کے
وہ جسے دیدہ وری کہتے ہیں ہم اسے بے بصری کہتے ہیں نام اس کا ہے اگر با خبری پھر کسے بے خبری کہتے ہیں یہ اگر لطف و کرم ہے تو کسے جور و بے دادگری کہتے ہیں کیا اسی کار نظر بندی کو حسن کی جلوہ گری کہتے ہیں گل کے اوراق پہ کانٹوں کا گماں کیا اسے خوش نظری کہتے ہیں بہر بیمار دوا ہے نہ ...
کس نے ان کا شباب دیکھا ہے جس نے دیکھا ہے خواب دیکھا ہے آسماں پر ابھی تو دنیا نے ایک ہی آفتاب دیکھا ہے دیکھنے کو تو حسن ہم نے بھی اک سے اک انتخاب دیکھا ہے چند ذی قلب تھے جنہیں ہم نے صرف صد اضطراب دیکھا ہے سننے والے بھی جس کو سن نہ سکیں ہم نے وہ انقلاب دیکھا ہے جب سے بدلی ہے وہ ...
مرہم زخم جگر ہو جائے ایک ایسی بھی نظر ہو جائے اک اشارہ بھی اگر ہو جائے اس شب غم کی سحر ہو جائے صبح یہ فکر کہ ہو جائے شام شام کو یہ کہ سحر ہو جائے ہو نہ اتنا بھی پریشاں کوئی کہ زمانے کو خبر ہو جائے یوں تو جو کچھ بھی کسی پر گزرے دل نہ افسردہ مگر ہو جائے فکر فردا بھی کریں گے ...
ایماں نواز گردش پیمانہ ہو گئی ہم سے بھی ایک لغزش مستانہ ہو گئی کوئی تو بات شمع کے جلنے میں تھی ضرور جس پر نثار ہستیٔ پروانہ ہو گئی صد شکر آج ہو تو گئی ان سے گفتگو یہ اور بات ہے کہ حریفانہ ہو گئی اللہ رے اشک بارئ شمع شب فراق جو صبح ہوتے ہوتے اک افسانہ ہو گئی حیرتؔ کے غم کدے میں ...