دل کو دل سے کام رہے گا
دل کو دل سے کام رہے گا دونوں طرف آرام رہے گا صبح کا تارا پوچھ رہا ہے کب تک دور جام رہے گا بدنامی سے کیوں ڈرتے ہو باقی کس کا نام رہے گا زلف پریشاں ہی اچھی ہے عالم زیر دام رہے گا مفتی سے جھگڑا نہ عدمؔ کر اس سے اکثر کام رہے گا
مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف
Popular Poet with dominant romantic shades celebrating love and life.
دل کو دل سے کام رہے گا دونوں طرف آرام رہے گا صبح کا تارا پوچھ رہا ہے کب تک دور جام رہے گا بدنامی سے کیوں ڈرتے ہو باقی کس کا نام رہے گا زلف پریشاں ہی اچھی ہے عالم زیر دام رہے گا مفتی سے جھگڑا نہ عدمؔ کر اس سے اکثر کام رہے گا
آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں تشنگی ساغر لبریز سے ٹکراتی ہے شعلۂ غم کی لپک اور مرا نازک سا مزاج مجھ کو فطرت کے رویے پہ ہنسی آتی ہے موت اک امر مسلم ہے تو پھر اے ساقی روح کیوں زیست کے آلام سے گھبراتی ہے سو ...
سو کے جب وہ نگار اٹھتا ہے مثل ابر بہار اٹھتا ہے تیری آنکھوں کے آسرے کے بغیر کب غم روزگار اٹھتا ہے دو گھڑی اور دل لبھاتا جا کیوں خفا ہو کے یار اٹھتا ہے ایسے جاتی ہے زندگی کی امید جیسے پہلو سے یار اٹھتا ہے زندگی شرکتوں سے چلتی ہے کس سے تنہا یہ بار اٹھتا ہے جو بھی اٹھتا ہے اس کی ...
اگرچہ روز ازل بھی یہی اندھیرا تھا تری جبیں سے نکلتا ہوا سویرا تھا پہنچ سکا نہ میں بر وقت اپنی منزل پر کہ راستے میں مجھے رہبروں نے گھیرا تھا تری نگاہ نے تھوڑی سی روشنی کر دی وگرنہ عرصۂ کونین میں اندھیرا تھا یہ کائنات اور اتنی شراب آلودہ کسی نے اپنا خمار نظر بکھیرا تھا ستارے ...
افسانہ چاہتے تھے وہ افسانہ بن گیا میں حسن اتفاق سے دیوانہ بن گیا وہ اک نگاہ دیکھ کے خود بھی ہیں شرمسار نا آگہی میں یوں ہی اک افسانہ بن گیا موج ہوا سے زلف جو لہرا گئی تری میرا شعور لغزش مستانہ بن گیا حسن ایک اختیار مکمل ہے آپ نے دیوانہ کر دیا جسے دیوانہ بن گیا ذکر اس کا گفتگو ...
کتنی صدیوں سے عظمت آدم عجز فطرت پہ مسکراتی ہے جب مشیت کی کوئی پیش نہ جائے موت کا فیصلہ سناتی ہے
مرمریں مرقدوں پہ وقت سحر مے کشی کی بساط گرم کریں موت کے سنگ دل غلافوں کو ساغروں کی کھنک سے نرم کریں
خوئے لیل و نہار دیکھی ہے تلخیوں کی بہار دیکھی ہے زندگی کے ذرا سے ساغر میں گردش روزگار دیکھی ہے
میں راستے کا بوجھ ہوں میرا نہ کر خیال تو زندگی کی لہر ہے لہریں اٹھا کے چل لازم ہے میکدے کی شریعت کا احترام اے دور روزگار ذرا لڑکھڑا کے چل
ماہ و انجم کے سرد ہونٹوں پر ہم نشیں تذکرہ ہے صدیوں کا جام اٹھا اور دل کو زندہ رکھ آسماں مقبرہ ہے صدیوں کا