Abdul Hameed Saqi

عبدالحمید ساقی

عبدالحمید ساقی کی غزل

    خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں

    خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں سروں پہ سورج اٹھانے والے خود اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں سکوں سے مرتے ہیں مرنے والے جنہیں اجالوں کی ہے تمنا یہی بہت ہے کہ سوئے مقتل چراغ شام و سحر رہے ہیں انہیں بھروسہ دو زندگی کا جنہیں محبت ہے زندگی سے اجل کے ہم نقش پا پہ چل کر فنا ...

    مزید پڑھیے

    لہو کی بوند مثل آئنہ ہر در پہ رکھی تھی

    لہو کی بوند مثل آئنہ ہر در پہ رکھی تھی سند اہل وفا کی لاشۂ بے سر پہ رکھی تھی نگاہیں وقت کی کیسے نظر انداز کر دیتیں اساس گلستاں کترے ہوئے شہ پر پہ رکھی تھی انا مجروح ہو جاتی قدم پیچھے اگر ہٹتے بنائے قرب دوہری دھار کے خنجر پہ رکھی تھی ادھر ہم سر ہتھیلی پر لیے مقتل میں پہنچے ...

    مزید پڑھیے

    اس سے پہلے کہ ہمیں اہل جفا رسوا کریں

    اس سے پہلے کہ ہمیں اہل جفا رسوا کریں اپنی جاں دے کر وفا کرنے کا ہم وعدہ کریں آؤ شبنم کی طرح بن جائیں تقدیر چمن کیوں کلی بن کر کھلیں اور کھل کے مرجھایا کریں گلشن ہستی میں ہم ساون کے بادل کی طرح جھوم کر اٹھا کریں اور ٹوٹ کر برسا کریں خاکۂ الفت میں خوں بھرنا تھا ہم نے بھر دیا لوگ ...

    مزید پڑھیے