اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا
اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا کم سے کم وجدان کے صحرا ہی میں گھومو ذرا نام کتنے ہی لکھے ہیں دل کی اک محراب پر ہوگا ان میں ہی تمہارا نام بھی ڈھونڈو ذرا بدگمانی کی یہی غیروں کو کافی ہے سزا مسکرا کر پھر اسی دن کی طرح دیکھو ذرا وقت کے پتھر کے نیچے اک دبا چشمہ ہوں میں آؤ پیاسو مل ...