Abdul Hafiz Naeemi

عبد الحفیظ نعیمی

جگر مرادآبادی کے شاگرد، کلاسیکی رنگ کی شاعری کی

A disciple of Jigar Moradabadi, known for his poetry of classical tenor

عبد الحفیظ نعیمی کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا

    اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا کم سے کم وجدان کے صحرا ہی میں گھومو ذرا نام کتنے ہی لکھے ہیں دل کی اک محراب پر ہوگا ان میں ہی تمہارا نام بھی ڈھونڈو ذرا بدگمانی کی یہی غیروں کو کافی ہے سزا مسکرا کر پھر اسی دن کی طرح دیکھو ذرا وقت کے پتھر کے نیچے اک دبا چشمہ ہوں میں آؤ پیاسو مل ...

    مزید پڑھیے

    دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا

    دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا قضاوقدر کا چہرہ اتر گیا ہوگا جو اپنے ہاتھوں لٹے ہیں بس اس پہ زندہ ہیں خدا کچھ ان کے لیے بھی تو سوچتا ہوگا تری گلی میں کوئی سایہ رات بھر اب بھی سراغ جنت گم گشتہ ڈھونڈتا ہوگا جو غم کی آنچ میں پگھلا کیا اور آہ نہ کی وہ آدمی تو نہیں کوئی دیوتا ...

    مزید پڑھیے

    غبار درد سے سارا بدن اٹا نکلا

    غبار درد سے سارا بدن اٹا نکلا جسے بھی خندہ بہ لب دیکھا غم زدا نکلا اب احتیاط بھی اور کیا ہو بے لباس تو ہوں اک آستین سے مانا کہ اژدہا نکلا مرے خلوص پہ شک کی تو کوئی وجہ نہیں مرے لباس میں خنجر اگر چھپا نکلا لگا جو پیٹھ میں نیزہ تو سمجھے دشمن ہے مگر پلٹ کے جو دیکھا تو آشنا نکلا مرے ...

    مزید پڑھیے

    بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے

    بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے نگاہیں پھیر لے اپنی نہ خود کو دھوکا دے مصاف زیست ہے بھر دے لہو سے جام مرا نہ مسکرا کے مجھے ساغر تمنا دے کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے وہ آنکھ تھی کہ بدن کو جھلس گئی قربت مگر وہ شعلہ نہیں روح کو جو گرما ...

    مزید پڑھیے

    ہر انساں اپنے ہونے کی سزا ہے

    ہر انساں اپنے ہونے کی سزا ہے بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہے نئے دربانوں کے پہرے بٹھاؤ ہجوم درد بڑھتا جا رہا ہے رہے ہم ہی جو ہر پتھر کی زد میں ہماری سر بلندی کی خطا ہے مہکتے گیسوؤں کی رات گزری سوا نیزے پہ اب سورج کھڑا ہے مرے خوابوں کی چکنی سیڑھیوں پر نہ جانے کس کا بت ٹوٹا پڑا ...

    مزید پڑھیے

تمام