کیا گزر کیجئے صیاد دل آزار کے پاس
کیا گزر کیجئے صیاد دل آزار کے پاس برگ گل پھینکتا ہے مرغ گرفتار کے پاس تیرے بیمار کی بالیں پہ کھڑی ہے حسرت موت بیٹھی نظر آتی ہے وہ غم خوار کے پاس بار بار آ کے وہ ٹھہراتے ہیں سودا دل کا گھر انہوں نے جو بنایا ہے تو بازار کے پاس شاخ گل دیکھ کے سامان خلش یاد آیا رکھ دیا پارۂ دل دل کو ...