Abdul Aziz Fitrat

عبدالعزیز فطرت

عبدالعزیز فطرت کی غزل

    خاموش کلی سارے گلستاں کی زباں ہے

    خاموش کلی سارے گلستاں کی زباں ہے یہ طرز سخن آبروئے خوش سخناں ہے جو بات کہ خود میرے تکلم پہ گراں ہے وہ تیری سماعت کے تو قابل ہی کہاں ہے ہر ذرہ پہ ہے منزل محبوب کا دھوکا پہنچے کوئی اس بزم تک ان کا ہی کہاں ہے انسان نے اسرار جہاں فاش کیے ہیں سویا ہوا خورشید ہے ذرہ نگراں ہے فطرتؔ دل ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہیں ملتا ہے کیا خوابوں میں

    کیا کہیں ملتا ہے کیا خوابوں میں دل گھرا رہتا ہے مہتابوں میں ہر تمنائے سکون ساحل الجھی الجھی رہی سیلابوں میں دل انساں کی سیاہی توبہ ظلمتیں بس گئیں مہتابوں میں آپ کے فیض سے تنویریں ہیں کعبۂ عشق کی محرابوں میں اپنا ہر خواب تھا اک موج سرور یوں ہوئی عمر بسر خوابوں میں حسن قسمت ...

    مزید پڑھیے

    غنچے کا جواب ہو گیا ہے

    غنچے کا جواب ہو گیا ہے دل کھل کے گلاب ہو گیا ہے پا کر تب و تاب سوز غم سے آنسو در ناب ہو گیا ہے کیا فکر بہار و محفل یار اب ختم وہ باب ہو گیا ہے امید سکوں کا ذکر رعنا سب خواب و سراب ہو گیا ہے مرنا بھی نہیں ہے اپنے بس میں جینا بھی عذاب ہو گیا ہے

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا

    کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا اپنا ہی پتا نہ ہم نے پایا دل کس کے جمال میں ہوا گم اکثر یہ خیال ہی نہ آیا ہم تو ترے ذکر کا ہوئے جزو تو نے ہمیں کس طرح بھلایا اے دوست تری نظر سے میرا ایوان نگاہ جگ مسکایا خورشید اسی کو ہم نے جانا جو ذرہ زمیں پہ مسکرایا مقصود تھی تازگی چمن کی ہم نے رگ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو

    اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو تھم گیا دور مئے ناب تو کچھ غم نہ کرو اور بھی کتنے طریقے ہیں بیان غم کے مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پر نم نہ کرو ہاں یہ شمشیر حوادث ہو تو کچھ بات بھی ہے گردنیں طوق غلامی کے لیے خم نہ کرو تم تو ہو رند تمہیں محفل جم سے کیا کام بزم جم ہو گئی برہم تو کوئی ...

    مزید پڑھیے