حسن کی کم نہ ہوئی گرمئ بازار ہنوز
حسن کی کم نہ ہوئی گرمئ بازار ہنوز نقد جان تک لیے پھرتے ہیں خریدار ہنوز اپنی عیسیٰ نفسی کی بھی تو کچھ شرم کرو چشم بیمار کے بیمار ہیں بیمار ہنوز طائر جاں قفس تن سے تو چھوٹا لیکن دام گیسو میں کسی کے ہے گرفتار ہنوز ہم بھی تھے روز ازل صحبتیں بزم الست بھولتی ہی نہیں وہ لذت گفتار ...