Abbas Rizvi

عباس رضوی

عباس رضوی کی غزل

    جس کو ہم سمجھتے تھے عمر بھر کا رشتہ ہے

    جس کو ہم سمجھتے تھے عمر بھر کا رشتہ ہے اب وہ رابطہ جیسے رہ گزر کا رشتہ ہے صبح تک یہ موجیں بھی تھک کے سو ہی جائیں گی چاند کا سمندر ہے رات بھر کا رشتہ ہے یہ جو اتنے سارے دل ساتھ ہی دھڑکتے ہیں کچھ قلم کا ناطہ ہے کچھ ہنر کا رشتہ ہے تیز ہیں تو کیا غم ہے تند ہیں تو شکوہ کیا ان ہواؤں سے ...

    مزید پڑھیے

    جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا

    جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا نغمہ اک اور مرے مطرب جاں سے آیا ایک نظارے نے میرے لیے آنکھیں بھیجیں دل کسی کارگہہ شیشہ گراں سے آیا جب بھی اس دل نے ترے قرب کی دولت چاہی ایک سایہ سا نکل کر رگ جاں سے آیا میں نہ ڈرتا تھا عناصر کی ستم کوشی سے خوف آیا تو بس اک عمر رواں سے آیا کیا کروں ...

    مزید پڑھیے

    ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں

    ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں ایسے مفلس ہیں کہ اسباب سے ڈر جاتے ہیں خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں رات کے پچھلے پہر نیند میں چلتے ہوئے لوگ خون ہوتے ہوئے مہتاب سے ڈر جاتے ہیں شاد رہتے ہیں اسی جامۂ عریانی میں ہاں مگر اطلس و کمخواب سے ...

    مزید پڑھیے

    دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی

    دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی بدل گئے مرے موسم ترے بدلتے ہی سمٹتے پھیلتے سائے کلام کرنے لگے لہو میں خوف کا پہلا چراغ جلتے ہی کوئی ملول سی خوشبو فضا میں تیر گئی کسی خیال کے حرف و صدا میں ڈھلتے ہی وہ دوست تھا کہ عدو میں نے صرف یہ جانا کہ وہ زمین پہ آیا مرے سنبھلتے ہی بدن ...

    مزید پڑھیے

    ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں

    ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے تو سنگ و خشت بھی اذن خطاب مانگتے ہیں کوئی ہوا سے یہ کہہ دے ذرا ٹھہر جائے کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں عجیب ہے یہ تماشا کہ میرے عہد کے لوگ سوال کرنے سے پہلے جواب مانگتے ...

    مزید پڑھیے

    میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا

    میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں ...

    مزید پڑھیے

    اہل جنوں تھے فصل بہاراں کے سر گئے

    اہل جنوں تھے فصل بہاراں کے سر گئے ہم لوگ خواہشوں کی حرارت سے مر گئے ہجر و وصال ایک ہی لمحے کی بات تھی وہ پل گزر گیا تو زمانے گزر گئے اے تیرگئ شہر تمنا بتا بھی دے وہ چاند کیا ہوئے وہ ستارے کدھر گئے وحشت کے اس نگر میں وہ قوس قزح سے لوگ جانے کہاں سے آئے تھے جانے کدھر گئے خوشبو اسیر ...

    مزید پڑھیے

    گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے

    گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہر طرف شور فغاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

    ہر طرف شور فغاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں قافلہ ہے کہ رواں ہے کوئی سنتا ہی نہیں اک صدا پوچھتی رہتی ہے کوئی زندہ ہے میں کہے جاتا ہوں ہاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں میں جو چپ تھا ہمہ تن گوش تھی بستی ساری اب مرے منہ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں دیکھنے والے تو اس شہر میں یوں بھی کم تھے اب ...

    مزید پڑھیے

    تعبیر کو ترسے ہوئے خوابوں کی زباں ہیں

    تعبیر کو ترسے ہوئے خوابوں کی زباں ہیں تصویر کے ہونٹوں پہ جو بوسوں کے نشاں ہیں آنکھوں میں تر و تازہ ہیں جس عہد کے منظر ہم لوگ اسی عہد گزشتہ میں جواں ہیں نیلام ہمارا بھی اسی شرط پہ ہوگا ہم رونق بازار ہیں جیسے ہیں جہاں ہیں دل تھا کہ کسی ساعت پر خوں میں ہوا سرد آنکھیں ہیں کہ اب تک ...

    مزید پڑھیے