عباس دانا کی غزل

    دل لگایا ہے تو نفرت بھی نہیں کر سکتے

    دل لگایا ہے تو نفرت بھی نہیں کر سکتے اب ترے شہر سے ہجرت بھی نہیں کر سکتے آخری وقت میں جینے کا سہارا ہے یہی تیری یادوں سے بغاوت بھی نہیں کر سکتے جھوٹ بولے تو جہاں نے ہمیں فن کاری کہا اب تو سچ کہنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے اس نئے دور نے ماں باپ کا حق چھین لیا اپنے بچوں کو نصیحت بھی ...

    مزید پڑھیے

    موت نے مسکرا کے پوچھا ہے

    موت نے مسکرا کے پوچھا ہے زندگی کا مزاج کیسا ہے اس کی آنکھوں میں میری غزلیں ہیں میری غزلوں میں اس کا چہرا ہے اس سے پوچھو عذاب رستوں کا جس کا ساتھی سفر میں بچھڑا ہے چاندنی صرف ہے فریب نظر چاند کے گھر میں بھی اندھیرا ہے عشق میں بھی مزہ ہے جینے کا غم اٹھانے کا گر سلیقہ ہے چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا

    کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا ٹوٹے پڑے تھے آئنے پتھر نہیں ملا پتھر کے جیسی بے حسی اس کا نصیب ہے وہ قوم جس کو کوئی پیمبر نہیں ملا جب تک وہ جھوٹ کہتا رہا سر پہ تاج تھا سچ کہہ دیا تو تاج ہی کیا سر نہیں ملا ہم رات بھر جلیں بھی تمہیں روشنی بھی دیں ہم کو چراغ جیسا مقدر نہیں ملا شہر ستم ...

    مزید پڑھیے

    عقل و دانش کو زمانے سے چھپا رکھا ہے

    عقل و دانش کو زمانے سے چھپا رکھا ہے خود کو دانستہ ہی دیوانہ بنا رکھا ہے گھر کی ویرانیاں لے جائے چرا کر کوئی اسی امید پہ دروازہ کھلا رکھا ہے بن گئے اونچے محل ان کی عبادت گاہیں نام دولت کا جہاں سب نے خدا رکھا ہے قابل رشک سے وہ دختر مفلس جس نے تنگ دستی میں بھی عزت کو بچا رکھا ہے جس ...

    مزید پڑھیے

    وہی درد ہے وہی بے بسی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

    وہی درد ہے وہی بے بسی ترے گاؤں میں مرے شہر میں بے غموں کی بھیڑ میں آدمی ترے گاؤں میں مرے شہر میں یہاں ہر قدم پہ سوال ہے وہاں ہر قدم پہ ملال ہے بڑی الجھنوں میں ہے زندگی ترے گاؤں میں مرے شہر میں کسے دوست اپنا بنائیں ہم کسے دل کا حال سنائیں ہم سبھی غیر ہیں سبھی اجنبی ترے گاؤں میں مرے ...

    مزید پڑھیے

    بے وفائی اس نے کی میری وفا اپنی جگہ

    بے وفائی اس نے کی میری وفا اپنی جگہ خون دل اپنی جگہ رنگ حنا اپنی جگہ کتنے چہرے آئے اپنا نور کھو کر چل دیے ہے مگر روشن ابھی تک آئنہ اپنی جگہ زندگی نے اس کو ساحل سے صدائیں دیں بہت وقت کا دریا مگر بہتا رہا اپنی جگہ اس کی محفل سے مجھے اب کوئی نسبت ہی نہیں ہے مری تنہائیوں کا سلسلہ ...

    مزید پڑھیے

    گردش دوراں سے اک لمحہ چرانے لیے

    گردش دوراں سے اک لمحہ چرانے لیے سوچنا پڑتا ہے کتنا مسکرانے کے لئے کتنی زحمت جھیلتا ہے ایک مفلس میزبان گھر کی بد حالی کو مہماں سے چھپانے کے لئے بھوک ان کو لے گئی ہے کارخانوں کی طرف گھر سے بچے نکلے تھے اسکول جانے کے لئے خون اپنا بیچ کر آیا ہے اک مجبور باپ بیٹیوں کے ہاتھ پر مہندی ...

    مزید پڑھیے

    نہ ہو جس پہ بھروسہ اس سے ہم یاری نہیں رکھتے

    نہ ہو جس پہ بھروسہ اس سے ہم یاری نہیں رکھتے ہم اپنے آشیاں کے پاس چنگاری نہیں رکھتے فقط نام محبت پر حکومت کر نہیں سکتے جو دشمن سے کبھی لڑنے کی تیاری نہیں رکھتے خریداروں میں رہ کر زندگی وہ بک بھی جاتے ہیں ترے بازار میں جو لوگ ہشیاری نہیں رکھتے بناؤ گھر نہ مٹی کے لب ساحل اے ...

    مزید پڑھیے

    مرا خلوص ابھی سخت امتحان میں ہے

    مرا خلوص ابھی سخت امتحان میں ہے کہ میرے دوست کا دشمن مری امان میں ہے وہ خوش نصیب پرندہ ہے جو اڑان میں ہے کہ تیر نکلا نہیں ہے ابھی کمان میں ہے تمہارا نام لیا تھا کبھی محبت سے مٹھاس اس کی ابھی تک مری زبان میں ہے تم آکے لوٹ گئے پھر بھی ہو یہیں موجود تمہارے جسم کی خوشبو مرے مکان میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ بات سچ ہے کہ تیرا مکان اونچا ہے

    یہ بات سچ ہے کہ تیرا مکان اونچا ہے تو یہ نہ سوچ ترا خاندان اونچا ہے کمال کچھ بھی نہیں اور شہرتوں کی طلب سنبھل کے تیر چلانا نشان اونچا ہے کہیں عذاب نہ بن جائے اس کا سایہ بھی ستون ٹوٹے ہوئے سائبان اونچا ہے مجھے یقین ہے تو شرط ہار جائے گا کہ دسترس سے تری آسمان اونچا ہے وہ قاتلوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2