Abbas Alvi

عباس علوی

عباس علوی کی غزل

    چشم ظاہر بیں کو ہر اک پیش منظر آشنا

    چشم ظاہر بیں کو ہر اک پیش منظر آشنا مل نہیں سکتا تجھے اب مجھ سے بہتر آشنا ظرف تیرا مجھ پہ روشن ہو گیا ہے اس طرح جس طرح قطرے سے ہوتا ہے سمندر آشنا ٹوٹنا تقدیر اس کی توڑنا اس کا خمیر غیر ممکن ہے نہ ہو شیشے سے پتھر آشنا ہر طرح کے پھول ہیں دل کی زمیں پر دیکھیے کس طرح کہہ دوں نہیں سینے ...

    مزید پڑھیے

    جو سارے ہم سفر اک بار حرز جاں کر لیں

    جو سارے ہم سفر اک بار حرز جاں کر لیں تو جس زمیں پہ قدم رکھیں آسماں کر لیں اشارہ کرتی ہیں موجیں کہ آئے گا طوفاں چلو ہم اپنے ارادوں کو بادباں کر لیں پروں کو جوڑ کے اڑنے کا شوق ہے جن کو انہیں بتاؤ کہ محفوظ آشیاں کر لیں جو قتل تو نے کیا تھا بنا کے منصوبہ ترے ستم کو بڑھائیں تو داستاں ...

    مزید پڑھیے

    یہ تم سے کس نے کہا ہے کہ داستاں نہ کہو

    یہ تم سے کس نے کہا ہے کہ داستاں نہ کہو مگر خدا کے لیے اتنا سچ یہاں نہ کہو یہ کیسی چھت ہے کہ شبنم ٹپک رہی ہے یہاں یہ آسمان ہے تم اس کو سائباں نہ کہو رہ حیات میں ناکامیاں ضروری ہیں یہ تجربہ ہے اسے سعیٔ رائیگاں نہ کہو مری جبین بتائے گی عظمتیں اس کی اسے خدا کے لیے سنگ آستاں نہ ...

    مزید پڑھیے