ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے
ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے ہم تو دنیا سے فقط اک درد جاں لے کر چلے آدمی کو چاہئے توفیق چلنے کی فقط کچھ نہیں تو گزرے وقتوں کا دھواں لے کر چلے جب بہاریں بے وفا نکلیں تو کس امید پر انتظار گل کی حسرت باغباں لے کر چلے کب مقدر کا کہاں کیسا کوئی منظر بنے ہم ہتھیلی پر لکیروں ...