Aazim Gurvinder Singh Kohli

عازم گروندر سنگھ کوہلی

عازم گروندر سنگھ کوہلی کی غزل

    ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے

    ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے ہم تو دنیا سے فقط اک درد جاں لے کر چلے آدمی کو چاہئے توفیق چلنے کی فقط کچھ نہیں تو گزرے وقتوں کا دھواں لے کر چلے جب بہاریں بے وفا نکلیں تو کس امید پر انتظار گل کی حسرت باغباں لے کر چلے کب مقدر کا کہاں کیسا کوئی منظر بنے ہم ہتھیلی پر لکیروں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تو بھی بے وفا نکلی

    زندگی تو بھی بے وفا نکلی کیا سمجھتے تھے اور کیا نکلی گھر کے دیوار و در بھی کانپ گئے دل کے گوشے سے جب صدا نکلی رو پڑی وہ ہوئی اداس بہت میرے آنگن سے جب صبا نکلی تار نازک تھے دل کے ٹوٹ گئے چھیڑ کر جب وہ دل ربا نکلی ہم عنایت جسے سمجھ کے چلے وہ بھی آخر کڑی سزا نکلی دوستوں نے کئے کرم ...

    مزید پڑھیے

    کبھی صورت نہیں ملتی کبھی سیرت نہیں ملتی

    کبھی صورت نہیں ملتی کبھی سیرت نہیں ملتی یہاں انسان سے انسان کی فطرت نہیں ملتی نصیبہ نے ہی بخشا ہے ہر اک کو اس کے حصے کا یہاں اک باپ کے بیٹوں کی بھی قسمت نہیں ملتی کرم مولا کرے تو آدمی بے لوث ہوتا ہے نہ ہو اس کی اگر رحمت تو یہ طاقت نہیں ملتی وہ دنیا میں بھی رہتے ہیں تو ہو کر خود سے ...

    مزید پڑھیے

    داغ دل کے جلا گیا کوئی

    داغ دل کے جلا گیا کوئی غم کی لذت بڑھا گیا کوئی سارا عالم اسی سے روشن ہے ذرے ذرے پہ چھا گیا کوئی کر گیا عہد ساتھ مرنے کا عمر میری بڑھا گیا کوئی روگ دیوانگی کا باقی تھا وہ بھی آخر لگا گیا کوئی رنگ میرا اڑا ہی جاتا ہے آج پھر مسکرا گیا کوئی شغل رونے کا دے گیا عازمؔ اٹھ کے محفل سے ...

    مزید پڑھیے

    دل نیا ہے نہ ہے خیال نیا

    دل نیا ہے نہ ہے خیال نیا صرف الفت کا ہے کمال نیا زندگی ہو گئی پرانی سی روز اٹھتا ہے اک وبال نیا آج پھر مل گیا کوئی اپنا پھر کوئی دے گیا سوال نیا ہم لکیریں کرید کر دیکھیں رنگ لائے گا کیا یہ سال نیا بچ کے عازمؔ کہاں تو جائے گا وقت ڈالے گا کوئی جال نیا

    مزید پڑھیے

    خیال تیرا ہے دل میں یہ بات تیری ہے

    خیال تیرا ہے دل میں یہ بات تیری ہے ہے ذرہ ذرہ ترا کائنات تیری ہے ہر ایک بازی ہے تیری یہ کھیل ہے تیرا میں صرف مہرہ ہوں یا رب بساط تیری ہے نفس نفس ہے عطا تیری ہے کرم تیرا یہ دن بھی تیرا اے داتا یہ رات تیری ہے میں جانتا ہوں مرا مجھ میں کچھ نہیں یا رب یہ ہے وجود بھی تیرا یہ ذات تیری ...

    مزید پڑھیے

    عجب فریب سا وہ اس کا مسکرانا تھا

    عجب فریب سا وہ اس کا مسکرانا تھا اسے تو جیسے فقط مجھ کو آزمانا تھا غضب کی بات کہ تم کو بھی اس زمانے میں مرا ہی گھر تھا جہاں بجلیاں گرانا تھا اسے جہاں میں کوئی دوسرا عدو نہ ملا نظر میں اس کی فقط میں ہی اک نشانا تھا جو سوز غم سے مجھے ہر نفس بچاتا رہا خیال یار کی پلکوں کا شامیانہ ...

    مزید پڑھیے