رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا
رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا ضمیر آدمیت سے میں غداری نہیں کرتا قلم شاخ صداقت ہے زباں برگ امانت ہے جو دل میں ہے وہ کہتا ہوں اداکاری نہیں کرتا میں آخر آدمی ہوں کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے مگر اک وصف ہے مجھ میں دل آزاری نہیں کرتا میں دامان نظر میں کس لیے سارا چمن بھر لوں مرا ذوق ...