Aashufta Changezi

آشفتہ چنگیزی

ممتاز مابعد جدید شاعر، 1996میں اچانک لاپتہ ہوگئے

Prominent post-modern poet who went missing in 1996

آشفتہ چنگیزی کی غزل

    آنگن میں چھوڑ آئے تھے جو غار دیکھ لیں

    آنگن میں چھوڑ آئے تھے جو غار دیکھ لیں کس حال میں ہے ان دنوں گھر بار دیکھ لیں جب آ گئے ہیں شہر طلسمات کے قریب کیا چاہتی ہے نرگس بیمار دیکھ لیں ہنسنا ہنسانا چھوٹے ہوئے مدتیں ہوئیں بس تھوڑی دور رہ گئی دیوار دیکھ لیں عرصے سے اس دیار کی کوئی خبر نہیں مہلت ملے تو آج کا اخبار دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں

    کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں سارے تماشے ختم ہوئے لوگ جا چکے اک ہم ہی رہ گئے جو فریب سحر میں ہیں ایسی تو کوئی خاص خطا بھی نہیں ہوئی ہاں یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں اب کے بہار دیکھیے کیا نقش چھوڑ جائے آثار بادلوں کے نہ پتے ...

    مزید پڑھیے

    کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا

    کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا ہر ایک رنگ میں اپنا ہی بس تماشا تھا ہم آج تک تو کوئی امتیاز کر نہ سکے یہاں تو جو بھی ملا ہے وہ تیرے جیسا تھا عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا نہ کوئی ظلم نہ ہلچل نہ مسئلہ کوئی ابھی کی بات ہے میں حادثے اگاتا ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے

    سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے جو مڑ کے دیکھا تو ہو جائے گا بدن پتھر کہانیوں میں سنا تھا سو بھوگنا ہے مجھے میں تجھ کو بھول نہ پایا یہی غنیمت ہے یہاں تو اس کا بھی امکان لگ رہا ہے مجھے میں سرد جنگ کی عادت نہ ڈال پاؤں گا کوئی محاذ پہ ...

    مزید پڑھیے

    پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے

    پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے مگر وہ لوٹ کے زلفوں کی سمت آتا ہے سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے جو مشکلوں کے لیے حل تلاش لایا تھا کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ...

    مزید پڑھیے

    بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں

    بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں صرف تیرا بدن چمکتا ہے کالی لمبی اداس راتوں میں کیا کیا چھینے گا اے امیر شہر اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں بند ہیں آج سارے دروازے آگ روشن ہے سائبانوں میں وہ سزا ...

    مزید پڑھیے

    رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی

    رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی کٹتی نہیں زنجیر مگر سود و زیاں کی آئیں جو یہاں اہل خرد سوچ کے آئیں اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہر گماں کی کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی اس دشت کے انجام پہ پہلے سے نظر تھی تاثیر سمجھتے تھے ہم آواز سگاں ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا

    آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو سب اپنی اپنی راہ لیں ہم نے کہا نہ تھا دروازے آج بند سمجھئے سلوک کے یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ ...

    مزید پڑھیے

    تعبیر اس کی کیا ہے دھواں دیکھتا ہوں میں

    تعبیر اس کی کیا ہے دھواں دیکھتا ہوں میں اک دریا کچھ دنوں سے رواں دیکھتا ہوں میں اب کے بھی رائیگاں گئیں صحرا نوردیاں پھر تیری رہ گزر کے نشاں دیکھتا ہوں میں یہ سچ ہے ایک جست میں ہے فاصلہ تمام لیکن ادھر بھی شہر گماں دیکھتا ہوں میں ہے روشنی ہی روشنی منظر نہیں کوئی سورج لٹک رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے

    آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے فرصت نہیں تھی اتنی کہ پیروں سے باندھتے ہم ہاتھ میں رکاب لیے بھاگتے رہے تیزی سے بیتتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ جینے کا اک عذاب لیے بھاگتے رہے کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4