آس فاطمی کی غزل

    بوسیدہ جسم و جاں کی قبائیں لیے ہوئے

    بوسیدہ جسم و جاں کی قبائیں لیے ہوئے صحرا میں پھر رہا ہوں بلائیں لیے ہوئے دل وہ عجیب شہر کہ جس کی فصیل پر نازل ہوا ہے عشق بلائیں لیے ہوئے میں وحشت جنوں ہوں مری مشت خاک کو پھرتی ہیں در بہ در یہ ہوائیں لیے ہوئے دیکھا بغور اپنی خودی کا جو آئنہ ابھرے ہزار چہرہ خطائیں لیے ہوئے اک ...

    مزید پڑھیے

    خود سے میں بے یقیں ہوا ہی نہیں

    خود سے میں بے یقیں ہوا ہی نہیں آسماں تھا زمیں ہوا ہی نہیں عشق کہتے ہیں سب جسے ہم سے وہ گناہ حسیں ہوا ہی نہیں وصل بھی اس کا اس کے جیسا تھا جو گماں سے یقیں ہوا ہی نہیں خانۂ دل سرا کی صورت ہے کوئی اس میں مکیں ہوا ہی نہیں لاکھ چاہا مگر سخن میرا قابل آفریں ہوا ہی نہیں میں بھی خود کو ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوں حیراں یہ سلسلہ کیا ہے

    میں ہوں حیراں یہ سلسلہ کیا ہے آئنہ مجھ میں ڈھونڈھتا کیا ہے خود سے بیتاب ہوں نکلنے کو کوئی بتلائے راستہ کیا ہے میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے میں ہوں یکجا تو پھر مرے اندر ایک مدت سے ٹوٹتا کیا ہے خود ہی تنہائیوں میں چلاؤں خود ہی سوچوں یہ شور سا کیا ...

    مزید پڑھیے