ذرا دھوپ اس سل کو چھو لے میاں
ذرا دھوپ اس سل کو چھو لے میاں یہی برف ہو جائے آب رواں ہری گھاس جنگل نہیں چھوڑتی ہوا شہر کی لاکھ ہو مہرباں دھنی روئی صورت اڑے اعتبار ردائے تعلق ہوئی دھجیاں سمندر مرے یار پتھرا گیا کہ ہیں ریت میں دفن بینائیاں
ذرا دھوپ اس سل کو چھو لے میاں یہی برف ہو جائے آب رواں ہری گھاس جنگل نہیں چھوڑتی ہوا شہر کی لاکھ ہو مہرباں دھنی روئی صورت اڑے اعتبار ردائے تعلق ہوئی دھجیاں سمندر مرے یار پتھرا گیا کہ ہیں ریت میں دفن بینائیاں
جو ناشنیدہ رہے لفظ آج بولیں گے شگوفہ ہائے تخیل زبان کھولیں گے بلند ٹیلے ابھی درمیان پردہ ہیں ہوا اک آئے گی سب اس کے ساتھ ہو لیں گے قدیم اونچی عمارات پر نسب کتبے زمیں پہ آئیں تو سوچوں میں قند گھولیں گے نہ حادثات کی چادر سے ڈھک سکے اسباب پرند جا کے بلندی پہ بھید کھولیں گے جہاں ...
دھرتی کی زباں سوکھ گئی زرد ہوئی گھاس آکاش سے امسال اترتی ہے فقط پیاس آباد ہوئی شام کی رونق مرے گھر میں سڑکوں پہ بھٹکنا مجھے کیوں آئے گا اب راس ہاتھوں میں ہے فرصت کہ گتھا زیست کا لچھا یاروں کا سر شام ہوا لان پہ اجلاس اب جاؤں کہاں چھت سے ٹپکتی ہیں بلائیں اب کس کا بھروسا ہوا گھر ...
بدن پہ گھاس ہری قرب کی اگاتا ہے یہ نیل روز نئے سامری بلاتا ہے ہماری پیاس بھی ہے بھید کھولنے والی وہ پانیوں کو سیہ ریت میں چھپاتا ہے ہرن کی آنکھ میں پھیلا ہرا بھرا جنگل دمکتی دھوپ پہ کلکاریاں لگاتا ہے سکوں کی اور جھپٹتی ہیں بوڑھی چیلیں پھر نکیلی کرچیاں ہر راستہ اگاتا ...
صدیوں سے شب و روز یہی سوچ رہا ہوں میں کون خدا کون ہے میں بھول گیا ہوں ایسے میں امنگیں ہی ذرا ساز اٹھائیں دہلیز پہ پھر سے میں ارادوں کی کھڑا ہوں ہر چند بھٹکنا پڑا بازار میں برسوں ہر شکل کی تصویر مگر کھینچ چکا ہوں آئے نہ یقیں آئے کسی اور کو مجھ پر صحرائے خموشی میں بہت دیر پھرا ...
بس گئی آ کے آنکھوں میں شام عدن جگمگاتے بدن رنگ رخ پیرہن سہمی سہمی کرن سبز اخلاق کی کھردرے پیڑ بے برگ ہلکی چبھن سرسراتی ہوئی ریت کرتی ہے چھیڑ کسمسانے لگے سیپیوں کے بدن خشک آوارہ پھرتا ہوا گرد باد منتشر راہ میں شور زاغ و زغن دھوپ رنگولیوں میں بھرے روشنی جگمگاتا ہوا آرزو کا ...
اپنی باتوں کو تولنا ہوگا یعنی سورج کو بولنا ہوگا دھوپ کمرے میں یوں نہ آئے گی اٹھ کے دروازہ کھولنا ہوگا حادثے ہیں شکست آمادہ موت کو سر پہ ڈولنا ہوگا نقش بکھرا دئے ہوا نے سب ایک اک ذرہ رولنا ہوگا آنکھ والے سے یہ تقاضا ہے ایک اندھا ہوں بولنا ہوگا
سرکشی وسعت و پہنائی تک قربتیں صرف پذیرائی تک سطح در سطح بدن روشن ہے کون پہنچا تری رعنائی تک تلچھٹیں تیرتی ہیں سیمابی دھوپ کی یورشیں بینائی تک پو پھٹی رات مگر آنکھوں میں سلوٹیں ذات کی گہرائی تک شام خوشبوئیں نشہ اور نغمہ اور پھر کھو گئی بینائی تک
ہر گام پہ حالات سے اک نقش بنا ہے احساس مرا چاروں طرف پھیل گیا ہے میں بھی ہوں تہی دست خریداروں کی صف میں بستی میں مری مصر کا بازار لگا ہے چاہے گا بھلا کون ہو دیواروں کا قیدی تقدیر مگر بیر ہواؤں سے پڑا ہے برتے ہوئے الفاظ مرے شعر نہ چھوئیں حالات نئے ہیں مرا احساس نیا ہے موجیں مرے ...