Aarij Meer

عارج میر

  • 1953

عارج میر کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    ذرا دھوپ اس سل کو چھو لے میاں

    ذرا دھوپ اس سل کو چھو لے میاں یہی برف ہو جائے آب رواں ہری گھاس جنگل نہیں چھوڑتی ہوا شہر کی لاکھ ہو مہرباں دھنی روئی صورت اڑے اعتبار ردائے تعلق ہوئی دھجیاں سمندر مرے یار پتھرا گیا کہ ہیں ریت میں دفن بینائیاں

    مزید پڑھیے

    جو ناشنیدہ رہے لفظ آج بولیں گے

    جو ناشنیدہ رہے لفظ آج بولیں گے شگوفہ ہائے تخیل زبان کھولیں گے بلند ٹیلے ابھی درمیان پردہ ہیں ہوا اک آئے گی سب اس کے ساتھ ہو لیں گے قدیم اونچی عمارات پر نسب کتبے زمیں پہ آئیں تو سوچوں میں قند گھولیں گے نہ حادثات کی چادر سے ڈھک سکے اسباب پرند جا کے بلندی پہ بھید کھولیں گے جہاں ...

    مزید پڑھیے

    دھرتی کی زباں سوکھ گئی زرد ہوئی گھاس

    دھرتی کی زباں سوکھ گئی زرد ہوئی گھاس آکاش سے امسال اترتی ہے فقط پیاس آباد ہوئی شام کی رونق مرے گھر میں سڑکوں پہ بھٹکنا مجھے کیوں آئے گا اب راس ہاتھوں میں ہے فرصت کہ گتھا زیست کا لچھا یاروں کا سر شام ہوا لان پہ اجلاس اب جاؤں کہاں چھت سے ٹپکتی ہیں بلائیں اب کس کا بھروسا ہوا گھر ...

    مزید پڑھیے

    بدن پہ گھاس ہری قرب کی اگاتا ہے

    بدن پہ گھاس ہری قرب کی اگاتا ہے یہ نیل روز نئے سامری بلاتا ہے ہماری پیاس بھی ہے بھید کھولنے والی وہ پانیوں کو سیہ ریت میں چھپاتا ہے ہرن کی آنکھ میں پھیلا ہرا بھرا جنگل دمکتی دھوپ پہ کلکاریاں لگاتا ہے سکوں کی اور جھپٹتی ہیں بوڑھی چیلیں پھر نکیلی کرچیاں ہر راستہ اگاتا ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں سے شب و روز یہی سوچ رہا ہوں

    صدیوں سے شب و روز یہی سوچ رہا ہوں میں کون خدا کون ہے میں بھول گیا ہوں ایسے میں امنگیں ہی ذرا ساز اٹھائیں دہلیز پہ پھر سے میں ارادوں کی کھڑا ہوں ہر چند بھٹکنا پڑا بازار میں برسوں ہر شکل کی تصویر مگر کھینچ چکا ہوں آئے نہ یقیں آئے کسی اور کو مجھ پر صحرائے خموشی میں بہت دیر پھرا ...

    مزید پڑھیے

تمام